عدم اعتماد آئینی جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہے


میں بطور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور سیاسیات کے ایک طالب علم کے علاوہ ماضی بعید میں ایک سر گرم سیاسی کارکن بھی رہا ہوں اور میں ہمیشہ سے اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں نے ایوبی آمریت کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور پی پی پی کے ایک فعال عہدے دار کی حیثیت میں جنرل ضیاء الحق کے بدترین دور میں مسلسل آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کا علم اٹھائے رکھا اور شدید ترین ریاستی تشدد اور متعدد بار قید و بند کے علاوہ روپوشی کے اذیت ناک دن بھی بسر کئیے لیکن اپنے نظریات سے کبھی سرمو انحراف کے بارے میں تصور تک نہیں کیا۔

پرویز مشرف کے دور میں بھی آئین سے انحراف کے اقدامات کے خلاف بھرپور آواز بلند کی اور یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں بطور وکیل پرویز مشرف کے خلاف ہائی ٹریزن کیس میں پراسیکیوشن ٹیم کا رکن بھی رہا گو کہ اس کیس کے فیصلے پر عملدرآمد تاحال تشنہ ء تکمیل ہے اور یہ ایک المیہ ہے کہ ہم کبھی کسی آئین شکن کو سزایاب ہوتے نہیں دیکھ سکے اور یہ امر واضح طور پر آئین سے کھلواڑ کرنے والوں کے لئے باعث حوصلہ افزائی ثابت ہوتا ہے۔ اور ایک غاصب جرنیل سر عام آئین پاکستان کی مقدس دستاویز کو 12 صفحے کی کتاب قرار دے کر پھاڑ پھینکنے کا عندیہ دے دیتا ہے اور سارا ملک مصلحت کی اوڑھنی اوڑھے سویا رہتا ہے۔ اب پھر سے ملک میں پچھلے ایک ہفتے سے جاری صورتحال انتہائی مایوس کن ہے اور واضح شکست سے بچنے کے لئے اکثریتی اراکین پر مشتمل حزب اختلاف کو غدار اور وطن دشمن قرار دے کر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر دیا گیا، قائد حزب اختلاف کو مائیک نہیں دیا گیا جمہوری اقدار کا سر کچل دیا گیا ایک خطرناک غیر آئینی راستے کا دروازہ کھول دیا گیا کہ جب چاہیں اکثریت سے محروم ہونے کے باوجود آپ پاؤں کی ایک ٹھوکر سے یہ دروازہ کھول لیں اور

No Confidence move

کا سر کچل کر رکھ دیں۔ عدم اعتماد آئینی جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہے اور انتقال اقتدار کا سب سے پر امن راستہ ہے جس کے لیے آئین نے واضح رولز اور طریقۂ کار متعین کر رکھا ہے۔ آئین کسی فرد واحد کی آمرانہ روش کا غلام نہیں ہے اور کسی بھی زید بکر کی مسند اقتدار پر زبردستی متمکن رہنے کی بچگانہ خواہش کی تکمیل کا ممد و معاون نہیں بنایا جاسکتا۔ مرکز اور پنجاب میں آئین شکنی کا کھیل عروج پر ہے ایک آئینی خلا دانستہ طور پر پیدا کر دیا گیا ہے اور یہی ماحول عرف عام میں انارکی کہلاتا ہے۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں بنانا ریپبلک بنانے کی دانستہ کوشش جاری ہے۔ کسی بھی ریاست کا آئین قومی و ملکی وحدت کا ضامن ہوتا ہے اسے اگر پاؤں تلے روند کر آپ نظام چلانے کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ آپ کی خام خیالی ہے اور تباہی کا راستہ ہے، آپ کے اپنے ادارے برملا کہہ رہے ہیں کہ سازش اور غداری کا کوئی ثبوت میسر نہیں آیا ہے، آپ نے ایک انتخابی حیلے کے طور پر ایک مقبول بیانیہ اپنایا ہے جو بیچنا آسان ہے لیکن انتہائی افسوسناک انجام کا باعث بن سکتا ہے جو خدانخواستہ ملکی اتحاد کو پارہ پارہ ہی نہیں کر سکتا بلکہ خاکم بدہن خانہ جنگی کا دروازہ بھی کھول سکتا ہے۔

اگر آپ کی نظر میں آپ کے تمام مخالفین وطن کے غدار ہیں تو بسم اللہ کیجئے اور سنگین غداری کا ٹرائل شروع کیجئے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ راقم الحروف پر جب کپتان کے کھلاڑی نازیبا الفاظ کے ساتھ تبرے بھیجتے ہیں تو میں قطعی طور پر بڑا نہیں مانتا، اس لیے کہ انہیں اسی سیاسی کلچر کے لیے ٹرینڈ کیا گیا ہے اور ان کی نظر میں کپتان کے نقطہ نظر سے اختلاف نعوذ باللہ گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتا ہے۔ میں خود بھی 2013 میں کسی خوش گمانی کا شکار ہو کر تبدیلی کے نام نہاد نعرے کے ساتھ بلے کے نشان پر صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ چکا ہوں،

جو سیاسی کلچر کپتان نے متعارف کروایا ہے وہ سیاسی رواداری اور مخالف کے نقطہ نظر کو برداشت کرنے کا قطعی طور پر عادی نہیں ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اگر کچھ صائب الرائے اور متحمل لوگ تحریک انصاف میں موجود ہیں تو وہ خود بھی موجودہ گنجلک اور پریشان کن سیاسی ماحول کا ذمہ دار کپتان اور اس کی کچن کیبنٹ کو سمجھتے ہیں لیکن سچ بولنے کا یارا نہیں رکھتے کہ یہ ان کی جماعت میں شجر ممنوعہ ہے اور حامد خان صاحب، جسٹس وجیہہ الدین صاحب، فوزیہ قصوری، جہانگیر ترین، علیم خان، اکبر ایس احمد، اسحق خاکوانی، جاوید ہاشمی، شعیب صدیقی، اور خورشید قصوری جیسے بہت سوں کو اختلاف رائے مہنگا پڑ چکا ہے۔

اور حال ہی میں گورنر سرور صاحب اور ڈپٹی اسپیکر مزاری صاحب تازہ ترین نشانہ ہائے اختلاف رائے کے طور پر سامنے آ چکے ہیں میں چونکہ خود اس پارٹی میں شامل رہا ہوں اور اب تک اپنے اس گناہ کا کفارہ ادا کر رہا ہوں اس لیے کامل وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پی ٹی آئی اب کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ خود پسند اور انا پرست کپتان کے گرد اکٹھا ہو جانے والا ایک فین کلب ہے ایک ایسا کلٹ ہے جو سچ جھوٹ، صحیح غلط اور نیکی بدی کے تصور سے بے نیاز ہے اور خان، کپتان کے فرمودات کو جزو ایمان سمجھتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے آئین کے ساتھ کئیے گئے حکومتی کھلواڑ کا سخت نوٹس نہ لیا اور آئین شکن اقدامات کو ریورس نہ کیا تو ہم گاہے بگاہے بھٹکتے بھٹکتے خاکم بدھن کسی المیے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

ہم نے آئین کے خالق کو جس روز نا کردہ گناہ کی سزا دے کر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا تھا اور عدالت عظمی کے نامعقول سزائے موت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا تھا وہ بربادی کے راستے پر ہمارا دوسرا قدم اور سنگین جرم تھا، ہم اس سے پہلے مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کے آمریت نواز فیصلے کے مضمرات سے دوچار تھے، پھر پے درپے عدالتی فیصلے آتے رہے اور کبھی نظریہ ضرورت اور کبھی وزرائے اعظم کی پے درپے نا اہلیوں نے آئین اور جمہوریت کا چہرہ داغ داغ کر دیا۔ آج عدالت عظمی چاہے تو جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کر سکتی ہے اور وقت کی شدید ضرورت بھی یہ ہے کہ غلاظت کا یہ فلڈ گیٹ مستقل طور کلوز کر دیا جائے۔

ہمیں اپنی پسند نا پسند اور سیاسی یا گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی یکجہتی اور ملکی وحدت کو اپنی اولین ترجیح قرار دینا ہو گا

مجھے قانون کے ایک ادنی طالب علم کے طور پر قوی امید ہے کہ عدالت عظمی کا فیصلہ ایک بہتر پاکستان کے لیے امید کا روشن استعارہ اور ملک میں دم توڑتی جمہوریت کے لئے آکسیجن ٹینٹ ہو گا اور ہم ایک نئے اور خوش کن سفر کا آغاز کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).