ایرانی فلمی ماہر آوینی کی پاکستانی سینما کے بارے میں رائے


یہ شہید آوینی ہے۔ ایران میں انہیں ایک فلمساز، محقق، لکھاری، نقاد، نظریہ پرداز، دانشور اور ایک اعلیٰ پائے کی عرفانی شخصیت تھے۔ فارسی زبان و ہنر کے ادبا اور ثقافتی جنگ میں صف اول کے مجاہدین میں شمار ہوتا ہے۔ موصوف ہنری ادب، سینما اور مستند سازی (ڈاکومنٹری) میں بھی ید طولی رکھتے تھے۔ ایرانی براڈکاسٹنگ تہران کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔

نوے کی دہائی میں شہید نے اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا پچاس ( 50 ) روزہ ثقافتی و سینمائی دورہ کیا۔ اس پچاس روزہ دورے میں پاکستان کے سینماؤں اور فلموں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں اپنی کتاب آئینہ جادو میں ایک مقالہ بھی لکھا۔ اس مقالے کا عنوان ”گزارشی شتاب زدہ دربارہ سینمائی پاکستان“ اس میں بھٹو کے سیاسی منشور کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پاکستانی سینما کو لاحق خطرات کو قلمبند کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں فلم سازی کا مرکز اور ثقافتی دارالحکومت لاہور ہے۔ جہاں پچاس سے زائد سینما گھر موجود ہیں۔ ان میں سے پانچ بڑے اسٹوڈیوز ہیں۔ 1985 سے 1990 تک کل 91 فلمز بنائے گئے ہیں۔ جن میں سے 30 پنجابی زبان میں، 27 پشتو میں 22 اردو میں اور 3 سندھی زبان میں بنائے گئے ہیں۔ اداکاروں اور گلوکاروں میں سے اکثر اہل تشیع ہیں۔ ان میں سے بعض محرم الحرام میں اپنے اسٹوڈیو میں مراسم عزاداری بھی رکھتے ہیں۔

پاکستان کی فلموں کو دیکھنے کے بعد ان کے تاثرات یہ ہیں کہ؛ پاکستان کی داخلی فلم انڈسٹری کی صورت حال ایسی ہے جیسے انقلاب اسلامی سے پہلے شاہ کے دور میں تھی۔ انہوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کے خلیے کو بڑے دلچسپ پیرائے میں یوں بیان کیا ہے کہ ”اردو فلم ایک ایسی ساڑھی کی مانند ہے۔ جو کسی انگریز عورت کو پہنا دی گئی ہو۔ اس کی ظاہری شکل روایتی اور مغربی باطنی نوعیت کی ہے۔“

یوں سمجھنے کہ ظاہری طور پر فلم مکمل اردو زبان میں اور پاکستانی کلچر کی عکاس ہے لیکن اس میں سوچ اور مواد غیر پاکستانی یا پھر مغربی ہے۔ المختصر یہ کہ غیر پاکستانی خصوصاً مغربی تہذیب کو فلم کی شکل میں پاکستانی کلچر کے قالب میں پیش کر کے اسے اردو کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔ زبان کوئی بھی ہو ہمیشہ ان گہرے اثرات اور تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے جنہیں کسی قوم نے قبول کیا ہو۔

شہید مزید رقمطراز ہیں کہ؛ ”طے تو یہ تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو (عوام کی مشترکہ زبان) ہو، لیکن اس کے حصول میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، وہ رکاوٹیں جو کبھی کبھی ناقابل حل معلوم ہوتی ہیں۔ اسکول کی نصابی کتابیں اردو میں ہیں، لیکن ماہرین تعلیم اور یونیورسٹی کی زبان انگریزی ہے۔ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہے جہاں 80 فیصد دیہی آبادی اور 60 فیصد سے زیادہ ناخواندہ ہیں اور جب تک ناخواندگی کا یہ مسئلہ ختم نہیں ہوتا، تمام لوگوں کے لیے انگلش سیکھنا ممکن نہیں ہو گا۔“

انہوں نے پاکستان میں سماجی دانشوروں کے فقدان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ”پاکستان میں“ دانشور طبقہ ”ابھی تک ایک“ طاقتور سماجی گروہ ”کے طور پر سامنے نہیں آیا۔ ان کے مطابق اگر سماج میں دانشوروں کا مقام نہیں بنے گا تو سینما دانشوروں کے لیے اجنبی ہو جائے گا۔ جب تک سینما کی دنیا میں دانشور قدم نہیں رکھیں گے تو اچھی فلم بھی نہیں بنے گی۔ ان کے بقول دانشوری ایک ضروری مرحلہ ہے جس سے فلمی دنیا کا گزرنا ضروری ہے۔

اب یہ ان کا مشاہدہ ہے کہ پاکستانی سینما میں ابھی تک ایک بھی فکری فلم نہیں بنائی گئی ”جس کی وجہ سے بھارتی فلموں کو پاکستانی عوام میں ایک بے پناہ مقبولیت ملی ہے۔ اس مقبولیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ پاکستان نے آزادی حاصل کر لی ہے لیکن پاکستانیوں نے ابھی تک (فکری و ثقافتی) آزادی حاصل نہیں کی۔

آخر میں پاکستانی سینما کے بارے میں شہید نے ایک بہت بڑا سوال اٹھایا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ لفظ“ پاکستانی سینما ”درست ہے یا نہیں، کیونکہ اگر“ سینما ”کا مطلب سنیما کا“ سینما بزنس ”ہے تو پاکستان کو سینما کا مالک سمجھا جا سکتا ہے، اور اگر نہیں تو پاکستان میں سینما نہیں ہے۔“ وہ انکشاف کرتے ہیں پاکستان کو سینما کی دنیا میں قدم جمانے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے اور ہر قوم سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے لیے سچائی کا راستہ الگ اختیار کرے۔

پاکستان بلاشبہ اس دور سے گزر رہا ہے لیکن اپنے طریقے سے۔ اس کے لئے ضروری ہے قوم اور قوم کے دانشور مانگی ہوئی دانشوری سے نکل کر ایک آزاد ذہنیت کے ساتھ سوچیں۔ شہید مرتضیٰ آوینی کر بروز جمعہ 10 اپریل 1993 کو شہادت نصیب ہوئی۔ وہ فلم سازی کے لئے ایران کے ایک سرحدی علاقے ”فکھ“ میں گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک بارودی سرنگ کے باعث شہید ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments