جمہوریت کے دعوے، غیر جمہوری طریقے


وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی 12 درجے تنزلی کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیتے ہوئے انہیں جمہوریت دشمن کہا ہے۔ دوسری طرف سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں اس امر پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اداروں نے کیسے شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے کی اجازت دی۔ حالانکہ ان پر متعدد مقدمات ہیں اور وہ بیشتر میں ضمانت پر رہا ہیں۔

ملک کے موجودہ کشیدہ سیاسی ماحول میں دونوں لیڈروں کی ایک دوسرے کے بارے میں یہ رائے حیران کن نہیں ہے لیکن اگر ان آرا کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں لیڈروں کے نزدیک جمہوریت کیا معنی رکھتی ہے اور کیا واقعی اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اور اقتدار سے محروم ہونے والے عمران خان اور تحریک انصاف جمہوری اصولوں کی وجہ سے ہی ایک دوسرے کے خلاف طعنہ زن ہیں؟ یا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اقتدار صرف ایک شخص کو مل سکتا ہے اور یہ دونوں اپنے اپنے طور پر خود کو اس کا سب سے اہل اور مناسب امیدوار سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہ خود کو جمہوریت کا مربی اور دوسرے کو اس کا دشمن قرار دیتے ہیں۔

عمران خان کے پاس سیاسی مخالفین کے بارے میں ایک رٹا ہوا جملہ ہے کہ وہ ’چور ڈاکو‘ ہیں۔ حالانکہ ایک عوامی عہدہ پر فائز رہنے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا لیڈر ہونے کے ناتے انہیں یہ دعویٰ کرتے ہوئے احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایک تو وہ چار برس تک ملک کی وزارت عظمی کے عہدے پر فائز رہے لیکن اس مدت میں وہ شہباز شریف یا کسی بھی ایسے سیاسی مخالف کے خلاف کسی مقدمہ کو حتمی انجام تک نہیں پہنچا سکے جس میں متعلقہ لوگوں پر کرپشن یا غیر قانونی طریقے سے دولت کمانے کا الزام لگایا گیا ہے ۔ اس کے برعکس اعلیٰ عدالتوں میں متعدد بار نیب یا دیگر اداروں کی ناقص کارکردگی اور غیر شفاف طریقوں پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ عمران خان کبھی اس سوال کا جواب نہیں دیں گے کیوں کہ وہ نعروں اور جذباتی طور سے گمراہ کرنے کی سیاست کرتے ہیں۔ لیکن انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ جس دین کی عظمت کے گن گاتے ہیں، وہ قانون کی حکمرانی کا پیغام دیتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا بنیادی اصول ہے کہ الزام ثابت ہونے تک کسی کو اس جرم کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح وہ نبی آخرالزمان ﷺ کو رحمت اللعالمین مان کر ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں ’مدینہ ریاست‘ قائم کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ رسول پاک ﷺ کی ساری زندگی حسن سلوک، نرم خوئی اور شفقت و محبت سے عبارت ہے۔ انہوں نے دوست دشمن سب کے لئے اپنا دامن کشادہ رکھا اور کبھی کسی کی توہین کرنے یا اسے نیچا دکھانے کا اقدام نہیں کیا۔ کیا ان کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے کسی شخص کو زیب دیتا ہے کہ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر دوسروں پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جائیں اور نفرت کا ماحول پیدا کیا جائے؟

سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ کے نام ایک خط میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو ’دہشت گردوں کا معاون‘ قرار دیتے ہوئے اپیل کی ہے کہ اب یہی شخص تحریک انصاف کے لیڈروں کے خلاف بلاسفیمی قوانین کے تحت انتقامی کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ حکومت کی طرف سے مدینہ منورہ میں رونما ہونے والے سانحہ پر توہین مذہب کے الزام میں ایف آئی آر درج کروانے کی حوصلہ افزائی کرنا اور یہ عندیہ دینا کہ اس معاملہ میں عمران خان سمیت تحریک انصاف کے اہم لیڈروں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے، ایک نامناسب اور غلط اقدام ہے۔ ان سطور میں اس حکومتی اعلان کو مسترد کرتے ہوئے سیاست میں مذہب کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کی مذمت کی جا چکی ہے۔ تاہم کیا عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بھی ایسے ہی عزم کا اظہار کیا ہے؟ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے نام شیریں مزاری کا خط اس کی تائید نہیں کرتا۔ وہ ملک کے وزیر داخلہ پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگا رہی ہیں لیکن ان کے پاس چند بیانات یا اخباری خبروں کے سوا کوئی ثبوت نہیں ہو گا۔ شیریں مزاری بخوبی جانتی ہوں گی کہ عمران خان کو بھی طالبان کے ساتھ شیفتگی رکھنے کی وجہ سے ’طالبان خان‘ کا لقب دیا گیا تھا لیکن محض اس سیاسی سلوگن کی وجہ سے انہیں دہشت گردوں کا سرپرست قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اسی طرح اگر رانا ثنا اللہ واقعہ دہشت گردوں کی معاونت کرتے رہے ہیں، یا وہ ماڈل ٹاؤن سانحہ میں پولیس کارروائی میں ہونے والی ہلاکتوں کے براہ راست ذمہ دار تھے تو کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے رانا ثنا اللہ کو پھانسنے کے لئے منشیات اسمگلنگ کا ایک جعلی مقدمہ تو قائم کیا لیکن وہ اپنے دور حکومت میں ان کے خلاف ماڈل ٹاؤن ہلاکتوں یا دہشت گردوں کی معاونت کا نہ تو کوئی الزام ثابت نہیں کر سکی۔ اگر چار سالہ دور حکومت میں بھی کوئی سیاسی قیادت اپنے بدترین سیاسی مخالف کے خلاف ان الزامات میں کوئی کارروائی نہیں کر سکی تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ یہ الزامات جھوٹ کا پلندا ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے بھی دہشت گردی کی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا دباؤ موجود تھا۔ اس پارٹی کے دور حکومت میں اس حوالے سے متعدد قوانین بھی نافذ کیے گئے تھے تاکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوایا جا سکے۔ اس عالمی اعانت کے باوجود شیریں مزاری کی حکومت رانا ثنا اللہ جیسے ’دہشت گردوں کے معاون‘ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکی۔ تو کیا اب تحریک انصاف کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ان جھوٹے الزامات کی بنیاد پر اقوام متحدہ کو ملوث کرنے کی کوشش کرے؟

ایک طرف عمران خان اہل پاکستان کو اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش کا یقین دلانے میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے ہی قریبی ساتھی اقوام متحدہ کے ایسے اداروں کے پاس امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں جنہیں عام طور سے امریکی اثر و رسوخ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ کیا عمران خان اس دو رخی حکمت عملی کا کوئی جواب دے سکتے ہیں؟ یا انہیں اپنے حامیوں پر اس قدر یقین ہے کہ وہ ان کی ہر غلط بات کو بھی درست مان کر نعرے لگاتے رہیں گے۔ یہ صورت حال کسی حد مشاہدہ کی جا چکی ہے۔ مدینہ منورہ کے سانحہ کے بعد عمران خان یا تحریک انصاف نے دو روز تک اس معاملہ پر بیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ تحریک انصاف اور اس کے لیڈر اس سانحہ کی ویڈیو اور خبریں نشر کرتے رہے اور اس افسوسناک مذموم حرکت کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ تاہم جب مسجد نبوی میں بدتہذیبی پر عوام کا غم و غصہ نمایاں طور سے سامنے آیا تو یہ کہہ کر گلو خلاصی کی کوشش کی گئی کہ یہ تو موجودہ لیڈروں کے خلاف عوامی رد عمل تھا۔ ورنہ کوئی مسلمان کبھی مسجد نبوی کی توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

عمران خان نے ابھی تک دو ٹوک الفاظ میں مسجد نبوی کے واقعہ کی مذمت نہیں کی، تو کیا اس سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ وہ اسے درست اور جائز طریقہ مانتے ہیں؟ یہ سارے طریقے رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور اپنے حامیوں کو سحر انگیز رکھنے کے لئے جائز و درست سمجھے جا رہے ہیں۔ عمران خان خود کو اللہ لوک اور صوفی قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے ہر موقع پر ایک تسبیح بھی ان کے ہاتھ میں دیکھی جاتی رہی ہے۔ یہ بھی اسی امر کی علامت ہے کہ وہ اللہ پر بھروسا رکھتے ہیں اور اپنا معاملہ اسی کے سپرد کرتے ہیں۔ اس بارے میں وہ دعوے بھی کرتے رہے ہیں۔ پھر کیا اللہ کی ذات ان کے ’بدکردار‘ سیاسی دشمنوں کو انجام تک پہنچانے کے لئے کافی نہیں ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی جھوٹے الزامات اور گمراہ کن نعروں کے ذریعے کسی بھی طرح اقتدار واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

تازہ انٹرویو میں عمران خان نے امریکی سازش کو ایک بار پھر واقعاتی حقیقت قرار دیا ہے حالانکہ ملکی اسٹبلشمنٹ اور ایجنسیاں اس دعوے کو مسترد کرچکی ہیں۔ اب انہوں نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا ہے کہ انہیں ’اندازہ نہیں تھا ادارے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی اجازت دیں گے‘ ۔ گویا وہ جس عوامی حمایت، انتخابی کامیابی اور عوام کا سمندر گھروں سے باہر نکال کر موجودہ حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں، وہ محض لوگوں کو دھوکہ دینے کا طریقہ ہے۔ انہیں پہلے کی طرح اب بھی یہی امید ہے کہ کسی طرح ادارے ان کی غلطیاں معاف کر دیں اور ایک بار پھر اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے۔ اگر عمران خان جانتے ہیں کہ شہباز شریف کو امریکی سازش نے نہیں بلکہ اداروں کی اعانت نے اقتدار تک پہنچایا ہے تو وہ صاف اور دو ٹوک الفاظ میں اس کا اعلان کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ دوبارہ ان ہی طاقتوں کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

اصل اصل لڑائی قومی دولت چرانے یا اختیارات کے غلط استعمال کی نہیں ہے بلکہ اقتدار میں باریاں لگانے کی ہے۔ عمران خان فی الوقت اقتدار کے لئے اپنی ہوس کو خوبصورت اور جذباتی نعروں میں چھپانے میں کامیاب ہیں لیکن انہیں جاننا چاہیے کہ حقیقت ہمیشہ پوشیدہ نہیں رہے گی۔ جلد یا بدیر انہیں یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاسی طاقت کے لئے عوام کی اعانت ہی اہم ہے۔ یا پھر ان کے حامیوں کو بھی ادراک ہو جائے گا کہ عمران خان کے نعرے مختلف ضرور تھے لیکن ان کا مقصد اور ہتھکنڈے وہی تھے جو دوسرے سیاست دان استعمال کرتے رہے ہیں۔

اسی طرح وزیر اعظم شہباز شریف نے میڈیا کی آزادی کے بارے میں ایک رپورٹ کی بنیاد پر عمران خان کو آزادی رائے اور جمہوریت کا دشمن قرار دیا ہے۔ ابھی نئی حکومت کو قائم ہوئے چند ہفتے ہی ہوئے ہیں لیکن حکومت مخالف صحافیوں کو اپنی حفاظت کے لئے عدالت سے ریلیف لینا پڑا ہے۔ شہباز شریف کو یہ جواب بھی دینا ہے کہ جب عمران خان خود ہی اپنی سیاسی غلطیوں اور معاشی ناکامیوں کے جال میں پھنس رہے تھے تو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں اس سیاسی بوجھ سے نجات دلا کر انہوں نے کس کے لئے کون سی جمہوری خدمت انجام دی ہے؟

کیا بہترین جمہوری طریقہ یہ نہ ہوتا کہ نئے انتخابات منعقد ہوتے اور عمران خان عوام کی عدالت میں اپنی غلطیوں کا حساب دیتے اور سزا پاتے؟ عوام کو حق انتخاب دیے بغیر اقتدار حاصل کر کے شہباز شریف نے کون سا جمہوری کارنامہ سرانجام دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments