سندھ کی مشہور جھیلیں


منچھر جھیل

پاکستان کی سب سے بڑی جھیل منچھر ہے، جو کئی شہروں سے جڑی ہوئی ہے۔ منچھر نام کا سندھی زبان میں لغوی معنی جو نکلتی ہے وہ اس طرح ہے : من یعنی دل۔ چھر یعنی بے انتہا بڑی۔ منچھر جھیل مطلب، بڑے دل والی جھیل۔ بے انتہا پھیلی ہوئی جھیل۔ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے کہ دیکھنے والے کی نظر کی حد ختم ہو جائے گی مگر جھیل کا ختم نہیں ہوگی۔ یہ جھیل کب وجود میں آئی، اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ منچھر جھیل کا وجود موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے، یعنی یہ قدیم ترین پتھر کے دور سے اسی جگہ پر موجود ہے۔

منچھر جھیل جو جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مچھلی پکڑنے والی جھیلوں میں سے ایک ہے، صوبہ سندھ کے ضلع دادو، سیہون اور جامسوری میں واقع ہے۔ منچھر جھیل کا پھیلاؤ کم از کم 350 مربع کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ 520 مربع کلومیٹر ہے۔ اس جھیل کو کھیرتھر کے پہاڑوں سے نئی بارشیں ملتی ہیں۔ دریائے سندھ کی مختلف ندیوں کا بھی پانی ملتا رہتا ہے۔ قدیم زمانے میں جب یہاں سے دریائے سندھ یا اس کا طاقتور بہاؤ گزرتا تھا۔ دریا کے تیز بہاؤ نے پہاڑی سلسلے کی رکاوٹ سے لڑتے ہوئے مشرق سے سیہون کے علاقے کی طرف واپسی پر دریا کے بہاؤ کو مجبور کر دیا۔

ماضی میں پچاس ہزار لوگوں کی آبادی کا ذریعہ معاش اس جھیل سے وابستہ تھا، جس میں مچھیروں کی بڑی تعداد، مزدور اور کشتیوں والے آ جاتے ہیں، مگر اب افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جھیل کے زہریلے پانی سے آبی زندگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک تحقیقاتی تجزیے سے پتا چلا کہ جھیل کا پانی نمکین، کیمیائی مواد اور فضلے کی آمیزش کی وجہ سے زہریلا ہو چکا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہا۔ شدید بدبودار پانی سے جھیل کے کناروں والی آبادیوں میں بھی بیماریاں ہو رہی ہیں۔ ماضی میں منچھر جھیل میں ساٹھ سے زائد اقسام کے پرندے جھیل پر پائے جاتے تھے جو اب نایاب ہو چکے ہیں۔

کینجھر جھیل

یہ ایک پرانی اور تاریخی جھیل ہے، جو پاکستان کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ جھیل سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹہ میں واقع ہے۔ کینجھر جھیل پہ یہ نام ایک مچھیرے کے نام سے پڑا، جس کے خاندان کی یہاں بستی قائم ہوئی اور بعد یہ جھیل بھی اسی نام سے مشہور ہو گئی۔ کینجھر جھیل تقریباً 24 کلومیٹر طویل، چھ کلومیٹر چوڑی اور 15 سے 20 میٹر تک گہری ہے۔ کینجھر جھیل سے کراچی کو پینے اور صنعتی استعمال کے لئے پانی کی فراہم ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ٹھٹھہ شہر کو بھی پینے اور زراعت کے لئے اسی جھیل سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ کینجھر جھیل سے سندھ کی ایک مشہور رومانوی داستان بھی منسلک ہے جو ”نوری جام تماچی“ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ نوری ایک مچھیرن تھی مگر خوبصورتی میں چودھویں کے چاند جیسی تھی۔ ایک مرتبہ حاکم وقت جام تماچی بادشاہ کینجھر جھیل گھومنے آیا اور اس کی نظر نوری پر پڑ گئی۔ بادشاہ اسی پل اس کے عشق میں مبتلا ہو گئے اور فورا شادی کا پیغام بھیجا۔

غریب مچھیروں کے نصیب جاگ گئے انہوں نے خوشی خوشی رشتہ قبول کر لیا اور نوری اس کی ملکہ بن گئی۔ جام تماچی اپنی نئی ملکہ کو محل میں لے گئے اور وہی مرتبہ دیا جو دوسری ملکاؤں کو دیا ہوا تھا۔ نوری حسن میں جتنی یکتا تھی، اتنی ہی مزاج میں سادہ تھی۔ جام تماچی کو نوری کی اسی سادگی نے فدا کر دیا کہ ہیرے جواہرات اور ریشم عورت کی آنکھوں میں لالچ بھر دیتا ہے مگر نوری نے کوئی لالچ نہیں کیا اور خاوند کی فرمانبرداری میں ہی رہی۔

نوری اور جام تماچی اسی کینجھر جھیل میں کشتی پر سوار وقت بھی گزارتے تھے۔ بادشاہ جام تماچی نے نوری کی محبت میں مچھیروں کے اوپر سرکاری ٹیکس بھی ختم کر دیا تھا۔ نوری اور جام تماچی کی داستان پر سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مجموعہ کلام ”شاہ جو رسالو“ میں ایک مکمل باب بھی ملتا ہے یعنی اتنا بڑا شاعر بھی اس داستان سے متاثر تھا۔ شاہ صاحب کی نوری کے لئے کہی ہوئی داستان میں ایک جگہ، نوری کی سادگی کو اس طرح دکھایا ہے :

”ہزاروں عیب وابستہ ہیں مجھ سے،
میں اک ملاح کی بیٹی ہوں پیارے،
مجھے احساس ہے بے مائیگی کا،
کہ مانند تن ماہی ہوں پیارے،
کہیں ایسا نہ ہو پھر بے رخی ہو،
خبر ہے تجھ کو جیسی بھی ہوں پیارے،
کہاں میں اور کہاں محلوں کی رانی،
میں اس زمرے میں کب آتی ہوں پیارے۔ ”

نوری کو کینجھر جھیل سے بے انتہا محبت تھی، وہ بادشاہ کے محل کو چھوڑ کر کینجھر جھیل آجاتی تھی۔ جب نوری کا انتقال ہوا تو اس کی وصیت کے مطابق، کینجھر جھیل کے بالکل درمیان ایک ٹیلے پر نوری کے مرشد شاہ ہوندڑو کی قبر کے پائنتی پر نوری کو دفن کیا گیا۔ آج بھی اتنی بڑی جھیل کے بیچوں بیچ اس کی قبر نظر آتی ہے۔ کینجھر جھیل آج بہت خوبصورت تفریحی مقام بن چکا ہے، کراچی اور حیدرآباد کے شہری اکثر اسی جگہ جانا پسند کرتے ہیں۔

ہالیجی جھیل

سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹہ کی جانب جاتے ہوئے، شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہالیجی جھیل ملتی ہے۔ سندھ میں جب انگریزوں کی حکومت تھی تب ہالیجی جھیل کھارے پانی کی جھیل تھی پھر 1930 ع میں انگریزوں نے اس جھیل میں دلچسپی لی اور اس کو کئی سال محنت کے بعد میٹھے پانی کی جھیل میں تبدیل کر دیا۔ 1946 ع میں انگریزوں کی فوجی چھاؤنیوں اور رہائشی کالونیوں کو اس جھیل سے پانی کی فراہمی شروع کر دی گئی تھی۔ ہالیجی میں شروع سے ہی مختلف اقسام کے پرندوں کی آمد رہتی تھی۔

کیونکہ اس جھیل کے کناروں اور اطراف میں گھنے درختوں کے جھنڈ ہوا کرتے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے کاٹ کر ختم کر دیے۔ سن 1971 ع میں ایران میں ہونے والی ایک جنگلی حیات کے تحفظ پر عالمی کانفرنس میں ہالیجی جھیل کو بھی سینکچورین قرار دیا گیا یعنی جہاں جنگلی حیات کو تحفظ ملتا ہو، اس جگہ کو سینکچورین قرار دیا جاتا ہے۔ ہالیجی جھیل میں فطرت کا حسن نظر آتا ہے۔ وہاں آبی جاندار و پرندے قدرتی جنگلی ماحول میں رہتے ہیں۔

وہاں شکار کو جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ سندھ میں کہیں بھی اسمگل کرنے کے دوران پکڑے جانے والے پرندوں اور مگرمچھوں کو جھیل پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس جھیل کی لمبائی 685 مربع میل ہے اور گہرائی اوسط 17 فیٹ تک بتائی جاتی ہے۔ ہالیجی جھیل نہ فقط پاکستان بلکہ ایشیا کی، پرندوں کے لئے سب سے بڑی اور محفوظ پناہ گاہ ہے، جہاں پر سوا دو سو اقسام کے پرندے لاکھوں کی تعداد میں رہتے تھے۔ وقتاً فوقتاً اس تعداد میں کمی آتی گئی۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب صرف سائبیریا کے پرندے آتے ہیں جبکہ مقامی پرندوں کی رہائش گاہ ویسے ہی ہے۔ ہالیجی جھیل میں مچھلیوں کی بھی کئی اقسام ملتی ہیں جبکہ مگر مچھوں کی افزائش کا بھی کافی عرصے تک رہی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سال 1998 ع سے مسلسل تازہ پانی فراہم نہ کرنے کی وجہ سے یہاں مگرمچھوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے چند ایک ہی رہ گئے۔ بے دھیانی کی نظر ہونے والی ہالیجی جھیل کے ماند پڑنے کی سب سے اہم وجہ اس میں تازہ پانی فراہم نہ کرنا اور صفائی ستھرائی کا نہ ہونا بتایا گیا۔ سیاحوں کے لئے بھی کوئی سہولت نہیں بلکہ کوئی ماضی کا اجاڑ لگتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس جھیل کو خوبصورت بنانے کے لئے اقدامات کیے جائیں تاکہ مزید تباہی سے بچ سکے۔

حمل جھیل

حمل جھیل دادو، لاڑکانہ اور شہداد کوٹ کے اضلاع تک پھیلی ہوئی ہے، جو انسانی آبادیوں کا مسکن بھی بنی ہوئی ہے۔ یہ جھیل سندھ کے ایک تاریخی کردار حمل چانڈیو کے نام سے منسوب ہے۔ حمل چانڈیو سندھ کے چودھویں صدی کی فوج کے بہادر سپوت تھے جب سندھ میں سمہ سلطنت قائم تھی، اور جام نظام الدین سموں بادشاہ تھے۔ آج جہاں مذکورہ جھیل ہے، اسی مقام سے کابل و قندھار کے حملہ آور سندھ کو لوٹنے آتے تھے۔ ان کو جواب دینے کے لئے ہی حمل چانڈیو کو یہاں مقرر کیا گیا۔ سندھ کے طویل پہاڑی سلسلے کھیرتھر سے آنے والی ندیاں بھی اس جھیل میں مل جاتی ہیں۔

سرن واری ڈھنڈ

ڈھنڈ سندھی زبان میں جھیل کو کہتے ہیں۔ سرن واری ڈھنڈ یعنی اینٹوں والی جھیل۔ ضلع سانگھڑ کے تعلقہ چوٹیاروں کے نزدیک یہ جھیل واقع ہے۔ یہ جھیل پانچ کلومیٹر طویل ہے، جس کے مشرقی جانب ایک اونچی دیوار اور درمیان میں چھوٹے چھوٹے سے جزیرے ہیں۔ دیکھنے میں یہ جھیل خوبصورت اور دلکش ہے۔ اس جھیل میں کسی زمانے میں مگر مچھوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی تھی لیکن شکاریوں نے ان کو ختم کر دیا۔ اب بھی مگر مچھ ہیں لیکن بہت کم۔ اس جھیل سے ماہی گیری سے وابستہ لوگوں کا معاشی سلسلہ بھی جڑا ہوا ہے، جبکہ آس پاس کی زرعی پیداوار کے لئے بھی یہاں سے مدد لی جاتی ہے۔

کراڑ جھیل

یہ سندھ کی قدیم جھیل ہے، جس سے سندھ کے سرتاج شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی نسبت جڑی ہوئی ہے۔ بھٹ شاہ کے مقام پر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کے قریب کراڑ جھیل واقع ہے۔ آج کل جھیل زوال پذیری کا شکار ہے جو ماضی میں کبھی دلکش ہوا کرتی تھی۔ ماضی میں اس جھیل کا رقبہ طویل تھا مگر بعد میں یہ سکڑنے لگ گئی۔ تب کراڑ جھیل کا بھنور مشہور تھا جس میں مچھیروں کی کشتیاں پھنس جاتی تھیں۔ اس جھیل میں آبی جاندار اور مختلف اقسام کے آبی پودے ہوتے تھے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں بھی اس جھیل کا ذکر کیا ہے۔ شاہ صاحب کا ڈیرہ جس کو بھٹ کہتے ہیں، بھٹ یعنی ٹیلہ یا مٹی سے بنا ہوا اونچا مقام۔ وہ بھی شاہ صاحب کے مریدوں نے کراڑ جھیل کی مٹی سے بنایا تھا۔ اس تاریخی جھیل کی دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث، اس کا حال کافی برا ہے، پانی سے بدبو بھی آتی ہے حالانکہ محکمہ ثقافت نے اس کو چاروں طرف سے لوہے کی جالی لگوا کر محفوظ بنا دیا ہے مگر اصل بات جھیل کو پانی فراہم کر کے تازہ توانا رکھنا ہے۔ اس جھیل میں آج بھی کنول کے پھولوں کی رنگینی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments