سازش بھی اور مداخلت بھی


کسی بھی ملک، ادارے یا کسی فرد کے خلاف اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے پہلے اس کے خلاف سازش کی جاتی ہے۔ جب سازش کے سب پہلو واضح ہو جائے، یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہ سازش کامیاب ہوگی۔ تو پھر مداخلت کر کے اپنی بنائی سازش کو کامیاب کیا جاتا ہے۔

مارچ کو واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفیر اسد مجید کی طرف سے پاکستان کے دفترخارجہ کو ایک خط موصول ہوتا ہے۔ جس کا ذکر عمران خان نے 27 مارچ کو تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں کیا۔ یاد رہے کہ 8 مارچ کو قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی طرف سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم پیش کی گئی تھی۔ یہ تحریک پہلی بار پاکستان کے کسی وزیراعظم کے خلاف کامیاب ہوئی ہے۔

اس جلسے میں عمران خان نے اپنی تقریر میں دفترخارجہ کو موصول شدہ خط کو لہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کی طرف سے ایک خط ملا ہے۔ جس میں دھمکی دی گئی ہے کہ پاکستان نے جو اب اپنی آزاد خارجہ پالیسی اپنا رکھی ہے اس کے پاکستان کو آنے والے وقت میں برے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اسمبلی میں جو عدم اعتماد آ رہی ہے اگر تو وہ کامیاب ہو گئی تو سب معاف کر دیا جائے گا۔ اپنے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مجھے بیرونی سازش کے ذریعے اتارا جا رہا ہے۔ اور اس سازش میں پاکستان میں اندرونی کردار بھی شامل ہیں۔ علی محمد خان نے بھی پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران کہا، کہ روس بہانہ ہے عمران خان نشانہ ہے۔

عمران خان کا یہ سازش والا بیانیہ پاکستان اور خاص کر نوجوانوں میں، جنگل میں، آگ کی طرح پھیل گیا، ہر گھر، چوراہے پر اس دھمکی آمیز خط کی باتیں ہونے لگی۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اس خط والے بیانیہ کو لے کے جس طرح سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف باتیں کی گئی، شاید پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا۔ قومی اداروں نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے عوام اور اداروں کے درمیان فاصلے بڑھانے کی کوشش قراردیا۔ اس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کی طرف سے بھی اس پر بریفنگ دی گئی۔ اور واضح کر دیا گیا کہ فوج کو سیاست میں نا گھسیٹا جائے، فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ بابر افتخار نے کہا کہ فوج اور عوام کے درمیان کچھ دشمن قوتیں خلیج پیدا کرنے کی کوششیں کر ہی ہیں۔ جنھیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اور کہا گیا کہ بیرون ملک سے جو مراسلہ موصول ہوا ہے۔ اس میں غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی ہے، جو مداخلت کے مترادف ہے۔ لیکن اسے ہم سازش نہیں کہے سکتے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنا سب سے پہلا عوامی پاور شو پشاور، پھر کراچی اور اس کے بعد لاہور مینار پاکستان میں کیا۔ ان جلسوں کو اگر بغور دیکھا جائے۔ تو خان صاحب کی مقبولیت میں پہلے سے دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے۔ اور آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ نوجوان نسل زیادہ تر سوشل میڈیا سے ہی وابستہ ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم بڑی تگڑی ہے۔ کوئی بھی پیغام چند منٹوں میں لاکھوں سے کروڑوں لوگوں تک پہنچا دیتی ہے۔

شہباز شریف نے بھی وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ہی اس خط کا ذکر کیا کہ ہم اسے دوبارہ قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کرے گے۔ اور یاد رہے کہ پہلے اجلاس میں دعوت ملنے کے باوجود بھی شرکت نہ کی جا سکی۔

جب دوبارہ اس خط (مراسلے ) کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں، واشنگٹن سے پاکستان کے سفارتخانے کو موصول ہونے والے اس خط پر غور کیا گیا۔ اس اجلاس میں سفیر اسد مجید نے اپنے اس مراسلے کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں بریفنگ دی۔ قومی سلامتی کی کمیٹی نے مواد اور کمیونیکیشن کی جانچ پڑتال کے بعد قومی سلامتی کے گزشتہ فیصلوں کی توثیق کی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے سکیورٹی ایجنسیز سے موصول ہونے والوں جائزوں اور پیش کردہ نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔

عمران خان نے مئی کے آخری ہفتے کو اپنے کارکنوں اور پاکستان کے تمام نوجوانوں کو اسلام آباد آنے کی کال دے رکھی ہے۔ اور ان کا کہنا تھا کہ تب تک اسلام آباد بیٹھے رہے گئے۔ جب تک عام انتخابات کا اعلان نہ کر دیا جائے۔ اب یہ تو وقت ہی طے کرے گا۔ کہ مئی کے آخری ہفتے میں کیا ہو گا، اور سابق وزیراعظم عمران خان عوامی پاور کے ذریعے اداروں پر کتنا دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ الیکشن کروانے پر رضامند ہو جائے گے۔

امریکہ اس وقت سپرپاور ہے۔ تمام دنیا میں زیادہ تر خرید و فروخت ڈالر ہی کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ بھی شاید اپنے آپ کو سب کا چوہدری سمجھتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کے امریکہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ تو اسے تاریخ سے ناواقف ہی سمجھا جائے۔ امریکہ رجیم چینج کرنے کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔

جو لوگ آج بھی جان بوجھ کر اس بات پہ اڑے ہوئے ہیں۔ کہ کوئی سازش اور مداخلت نہیں ہوئی۔ تو پھر یہ واضح کردے، کہ یک دم اتحادیوں کا سابق حکومت کو چھوڑ دینا، منحرف ارکان کا سامنے آنا اور اپنی ہی حکومت کے خلاف بیانات دینا، پاکستانی عوام یہ سوال پوچھتی ہے۔ تو پھر یہ سب آخر ہے کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments