انڈیا میں کووڈ 19 سے اموات: کیا ہم کبھی یہ جان سکیں گے کہ اس وبا سے کتنے انڈین شہری ہلاک ہوئے؟

سوتک بسواس - بی بی سی نامہ نگار، انڈیا


انڈیا، کورونا
گزشتہ سال اپریل میں انڈیا کو کووڈ کی دوسری تباہ کن لہر کا سامنا کرنا پڑا تھا
عالمی ادرہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں کووڈ سے 47 لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں جو کہ سرکاری ریکارڈ سے تقریباً 10 گنا زیادہ ہیں تاہم انڈین حکومت نے ان اعدادوشمار کو مسترد کیا ہے۔

لیکن کیا ہم کبھی یہ جان سکیں گے کہ اس وبا میں کتنے انڈین شہری ہلاک ہوئے؟

نومبر سنہ 2020 میں ورلڈ مورٹیلٹی ڈیٹا سیٹ کے محققین نے انڈیا کے حکام سے کہا کہ وہ اس حوالے سے معلومات فراہم کریں۔

یہ ادارہ تمام وجوہات سے ہونے والی اموات کے بارے میں تازہ ترین ڈیٹا فراہم کرتا ہے تاہم انڈیا کے اعدادوشمار فراہم کرنے والے ادارے نے کہا کہ اس کے پاس اس حوالے سے اطلاعات موجود نہیں۔

ایک سائنسدان ایریل کارلنسکی کے مطابق، جنھوں نے ڈیٹا سیٹ کو مشترکہ طور پر تیار کیا اور وہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کووڈ کی وجہ سے 2020 اور 2021 کے دوران عالمی سطح پر ہونے والی اضافی اموات کے تخمینے کے لیے قائم کردہ ایک مشاورتی گروپ کے رکن ہیں، زیادہ اموات اس بات کا ایک سادہ پیمانہ ہیں کہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں کتنے لوگ توقع سے زیادہ مر رہے ہیں۔

اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان میں سے کتنی اموات کووڈ کی وجہ سے ہوئیں لیکن انھیں وبائی امراض کے پیمانے اور تعداد کا ایک پیمانہ سمجھا جا سکتا ہے۔

انڈیا میں اب تک کورونا وائرس کی وجہ سے سرکاری طور پر پانچ لاکھ سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

انڈیا نے یکم جنوری 2020 سے 31 دسمبر 2021 کے درمیان چار لاکھ 81 ہزار کووڈ اموات کی اطلاع دی تھی لیکن ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق اصل تعداد اس سے تقریباً 10 گنا زیادہ ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر کووڈ سے ہونے والی اموات کا تقریباً ایک تہائی حصہ انڈیا میں ہے۔

انڈیا، کورونا

انڈیا میں اب تک کورونا وائرس کی وجہ سے سرکاری طور پر پانچ لاکھ سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں

لہٰذا انڈیا ان 20 ممالک میں شامل ہے جو تقریباً پچاس فیصد عالمی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے جو اس مدت کے لیے متوقع عالمی اضافی اموات کا 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ تقریباً نصف اموات جو اب تک عالمی سطح پر شمار نہیں کی گئی تھیں وہ انڈیا میں ہوئیں۔

عالمی ڈیٹا بیس سے اس کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے پاس جو واحد قومی تعداد ہے جو زیادہ اموات کے ماڈل پر مبنی تخمینہ ہے۔ ان ماڈلز نے ریاستی سطح کے سول رجسٹریشن کے اعداد و شمار، بیماری کے مطالعہ کا عالمی بوجھ، ایک آزاد نجی پولنگ ایجنسی کے ذریعہ رپورٹ کردہ اموات اور کووڈ سے متعلقہ دیگر پیرامیٹرز کو دیکھا۔

اس ہفتے کے اوائل میں حکومت نے سول رجسٹریشن کے اعداد و شمار جاری کیے جس میں سنہ 2020 میں 81 لاکھ اموات ظاہر کی گئیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں چھ فیصد زیادہ ہیں۔

عہدیداروں نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام 474,806 اضافی اموات کو کووڈ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق سنہ 2020 میں انڈیا میں کووِڈ سے تقریباً 149,000 افراد ہلاک ہوئے۔

ٹورنٹو میں سینٹر فار گلوبل ہیلتھ ریسرچ کے ڈائریکٹر اور ڈبلیو ایچ او کے اضافی موت کے حساب کتاب کی حمایت کرنے والے ماہر ورکنگ گروپ کے رکن پربھات جھا کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر کووڈ سے انڈیا میں اموات کی شرح غیر معمولی طور پر کم نہیں تھی، صرف غیر معمولی طور پر کم شمار کی گئی تھی۔‘

’تین بڑے مطالعات سے پتا چلا کہ ستمبر 2021 تک وبائی امراض سے انڈیا میں ہونے والی اموات ’سرکاری طور پر اطلاع دی گئی رپورٹ سے چھ سے سات گنا زیادہ تھیں۔‘

گراف

کیا ہم کبھی جان سکیں گے کہ اس وبا میں درحقیقت کتنے انڈین ہلاک ہوئے؟

انڈیا نے مسلسل ان اندازوں کو مسترد کیا ہے جو بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کووڈ کا مقابلہ کرنے کے حکومت کے فاتحانہ بیانات کے بالکل برعکس ہیں۔

حکام نے انھیں ’غلط معلومات اور شر پسند‘ قرار دیا اور الزام لگایا ہے کہ اس کے طریقہ کار اور ریسرچ میں خامیاں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اموات کو کم ریکارڈ کرنے کا امکان کم سے کم تھا۔

کارلنسکی کا کہنا تھا کہ ’مجھے ڈر ہے کہ اب تک ڈیٹا دستیاب ہونے کے باوجود بھی حکومت اسے عام کرنے میں ہچکچائے گی کیونکہ یہ ان کے شائع شدہ اعدادوشمار اور اس بیانیے سے متصادم ہے کہ انڈیا نے مختلف وجوہات کی وجہ سے کووڈ کو شکست دے دی۔‘

یہ درست ہے کہ بہت سے ممالک نے وبائی امراض کے دوران مناسب اموات کی تعداد فراہم کرنے میں جدوجہد کی ہو گی۔ کچھ متاثرین کا شمار نہیں کیا گیا ہو گا کیونکہ وائرس کے لیے ان کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا اور موت کا اندراج پیچیدہ اور سست رہا ہوگا۔ اس کے علاوہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی تمام وجوہات کی وجہ سے ہونے والی اموات کے اعدادوشمار کافی تاخیر کے ساتھ شائع کیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’دنیا کی فارمیسی‘ کہلانے والا انڈیا کورونا کی افراتفری میں کیسے ڈوبا

پوری دنیا کو انڈیا کے کووڈ بحران کی پرواہ کیوں کرنی چاہیے؟

انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟

انڈیا، امریکہ اور روس جیسے ممالک سے پیچھے ہے جہاں موت کی رجسٹریشن مکمل اور باقاعدگی سے شائع ہوتی ہے۔

مسٹر کارلنسکی کے مطابق چین میں موت کے اعدادوشمار کچھ ’غیر واضح‘ رہے ہیں اور آبادی کے لحاظ سے انڈیا سے موازنہ کرنے والا وہ واحد ملک ہے لیکن وہاں کے حکام نے سنہ 2020 اور 2021 میں ہونے والی اموات کے بارے میں کچھ سالانہ اعدا وشمار جاری کیے ہیں۔

انڈیا میں اموات کا شمار کرنا آسان کام نہیں کیونکہ آدھی سے زیادہ اموات تو گھر پر ہوتی ہیں اور وہ بھی دیہات میں۔

ناقص ریکارڈ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال ایک کروڑ اموات میں سے 70 فیصد کی طبی طور پر تصدیق شدہ وجہ نہیں اور 30 لاکھ اموات رجسٹرڈ نہیں۔ خواتین کی گنتی کم ہے اور خاص طور پر غریب ترین ریاستوں جیسے اترپردیش اور بہار میں اموات کی رجسٹریشن کم ہے۔

لیکن محققین کا کہنا ہے کہ انڈیا نے وبائی امراض کے بنیادی اعدادوشمار کو عام کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد، عمر، جنس کے حساب سے ہونے والی اموات اور ویکسینیشن کی صورتِحال کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا کے بغیر، اس بات کی تصدیق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا کامیاب ویکسینیشن پروگرام، حقیقت میں اموات کو کم کر رہا ہے۔

انڈیا، کورونا

انڈیا نے وبائی امراض کے بنیادی اعداد و شمار کو عام کرنے سے بھی انکار کیا ہے

مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر بھرامر مکھرجی کہتے ہیں کہ ’ڈیٹا کی کمی اور واضح نہ ہونا انڈیا میں وبائی بیماری کی خصوصیات رہی ہیں، ڈیٹا کے معیار کو بہتر نہ کرنے یا ڈیٹا کو دستیاب نہ کرنے کے بارے میں انڈیا میں اکثر غیر معمولی اور غیر سنجیدہ تکبر پایا جاتا ہے۔‘

دوسروں کو وبائی بیماری کی حقیقت کو واضح نہ کرنے کی انڈیا کی ضد پر اسرار لگتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ انڈیا کو سول رجسٹریشن کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے، موت کی اطلاع دینے کی ترغیب دینی چاہیے اور میڈیکل سرٹیفیکیشن اور ڈیٹا کو بہتر بنانا چاہیے۔

انڈیا جدید مشین کے استعمال اور کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے ذریعے اور غیر فعال بائیو میٹرک شناختی کارڈز اور سیل فون ریکارڈ جیسے ذرائع سے بھی اموات کا ڈیٹا جمع کر سکتا ہے۔

ایک طریقہ جس سے انڈیا کووڈ سے مرنے والے لوگوں کی تعداد پر کافی تیزی سے گرفت حاصل کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ آنے والی مردم شماری میں ایک سادہ سا سوال شامل کیا جائے کہ کیا یکم جنوری 2020 سے اب تک آپ کے گھر میں کوئی موت ہوئی تھی؟

اگر ہاں تو براہِ کرم ہمیں مرنے والے کی عمر اور جنس اور موت کی تاریخ بتائیں۔ ڈاکٹر جھا کا کہنا ہے کہ ’یہ وبائی امراض کے دوران زیادہ اموات کا براہ راست تخمینہ فراہم کرے گا۔‘

صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے موت اور بیماری کے بارے میں معلومات بہت اہم ہوتی ہیں۔ سنہ 1930 کی دہائی میں امریکہ اور برطانیہ میں مردوں میں پھیپھڑوں کے کینسر سے ہونے والی اموات کی شرح میں ایک بڑے اضافے سے یہ بات واضح ہوئی کہ اس کی بڑی وجہ سیگریٹ نوشی ہے۔

سنہ 1980 کی دہائی میں سان فرانسسکو میں نوجوان ہم جنس پرست مردوں کی اموات میں اضافے کو موت کے اندراج کے نظام نے اٹھایا اور اس کی وجہ سے ایچ آئی وی/ایڈز کی شناخت کی گئی، جو ایک عالمی وبا کے آغاز کا اشارہ تھا۔

پروفیسر مکھرجی کا کہنا ہے کہ انڈیا کو وبائی امراض کے دوران اموات کے تمام اعدادوشمار جاری کر کے اپنے ناقدین کو خاموش کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے سائنس کا مقابلہ سائنس کے ساتھ کریں اور تمام قومی ڈیٹا دستیاب کریں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments