ہفتے کی چھٹی اور وفاقی ملازمین


بدقسمتی سے پاکستان میں سیاستدانوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے۔ ایسے اقدامات کرتے ہیں کہ جس سے عوام کی توجہ اہم موضوع سے ہٹا کر معمولی، لا حاصل، غیر ضروری موضوعات کی طرف مبذول کروائی جائے۔ جس پر بحث اور مکالمے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اہم موضوعات پر بات نہ کی جائے۔ سوال و جواب نہ ہو۔ جس کی ایک بہترین مثال موجودہ وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ساتھ ہی وفاقی اداروں میں ہفتہ کی چھٹی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم حلف اٹھانے کے فوراً بعد مہنگائی پر کوئی ایکشن لیتے، معاشی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے کاروباری افراد اور معاشی ماہرین سے کوئی میٹنگ کرتے، ڈالر کے ریٹ پر کوئی بات کرتے، بجلی و توانائی کے بحران کے حوالے سے کوئی اقدامات کرتے۔ خط جو کہ مراسلہ ہے اس کی بابت امریکہ کو اعتماد میں لیتے۔ لیکن نہیں وزیراعظم صاحب کی سمجھ بوجھ کے مطابق سب سے اہم مسئلہ وفاقی اداروں کی ہفتے کی چھٹی ختم کرنا تھا۔

لہذا انہوں نے پہلا حکم نامہ جاری فرمایا کہ وفاقی ملازمین کی ہفتے کی چھٹی ختم کر دی جائے۔ وفاقی ملازمین کو بعض حلقوں کی جانب سے یہ امید دلائی گئی تھی کہ رمضان المبارک کے بعد یہ چھٹی دوبارہ بحال کر دی جائے گی۔ جمعہ عید کی چھٹیوں کے بعد پہلا دفتری حاضری کا دن تھا لہذا تمام دن وفاقی ملازمین چھٹی بحال ہونے کی آس امید میں رہے۔ لیکن وزیراعظم صاحب نے ہفتے کی چھٹی بحال نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہفتے کے دن کے دفتری اوقات کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم صادر فرمایا۔

دلچسپ صورتحال اس وقت اس وقت پیدا ہوئی جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے ملازمین کی چھٹی بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں وفاقی ملازمین کی سب سے زیادہ تعداد بینک ملازمین کی ہے اب چونکہ اسٹیٹ بینک نے چھٹی بحال کردی ہے تو وفاقی ملازمین کے احتجاج کا پریشر تقریباً ختم ہو جائے گا۔ یہاں حکومت سے سوال یہ بنتا ہے کیا اسٹیٹ بینک اتنا خود مختار ادارہ ہے کہ وفاقی چھٹیوں کی پروا نہیں کرتا؟ دوسرے وفاقی ملازمین کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟

دنیا کے دوسرے کافی ممالک میں صورتحال پاکستان سے مختلف ہے۔ متحدہ عرب امارات نے یکم جنوری 2022 کو وفاقی اداروں میں ہفتہ کی چھٹی کا بل پاس کیا۔ دنیا و یورپ کے بیشتر ممالک سویڈن، لکسمبرگ، یونان، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، آسٹریا، پولینڈ، یونائیٹڈ کنگڈم میں ملازمین کو ہفتے میں دو چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو سالانہ چھٹیاں بھی دی جاتی ہیں تاکہ وہ فیملی کو تفریح کے لیے لے کر جاسکیں۔

سب سے پہلے اس ماڈل کے بارے میں سوچنے والے شخص امریکی کارساز کمپنی فورڈ کے مالک ہینری فورڈ تھے جنھوں نے 1926 میں اسی نوعیت کی تبدیلیاں عمل میں لائیں تھیں، جیسے آٹھ گھنٹے کام، ہفتے میں دو دن چھٹی اور تنخواہ کے ساتھ سالانہ چھٹیاں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک کے دفاتر میں ایچ آر بھی مکمل ہوتی ہے۔ کام کرنے کے لئے بہترین دفتری ماحول دیا جاتا ہے۔ لٹریسی ریٹ بہت بہتر ہونے کی وجہ سے ملازمین کو کام کرنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔

ملازمین کو بہترین سفری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ پرکشش تنخواہ دی جاتی ہے تاکہ ریلیکس ہو کر بہتر انداز میں اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔ اور ان کی سماجی زندگی میں بھی بہتری آ سکے۔ وزیراعظم کا بغیر معاشی ماہرین سے مشورہ اور بریفنگ کے اچانک چھٹی ختم کرنے مزید بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اگرچہ جب ہفتے کی چھٹی کا اعلان بجلی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کیا گیا تھا تو وہ بھی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ لیکن اب ایسے اچانک ختم کرنا بھی وزیراعظم صاحب کی شوبازیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

پاکستان کے تمام سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ایچ آر کا مسئلہ پوری شدت سے موجود ہے۔ ایک فرد سے دو افراد کے برابر کام لیا جا رہا ہے۔ تنخواہ انتہائی کم، جاب سکیورٹی نہ ہونے کے برابر اور ڈیوٹی کے اوقات زیادہ ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی بینک ( اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہفتے کی چھٹی کو بحال کر دیا ہے ) میں چلے جائیں ملازمین رات 8 بجے تک کیش بیلنس کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہاں تک کہ پاکستان میں ایسے ادارے (پولیس ملازمین) بھی موجود ہیں جہاں ہفتے میں دو تو کیا ایک بھی چھٹی نہیں دی جاتی۔

ریلوے ملازمین کی کچھ ایسی آسامیاں بھی ہیں جن کو ہفتے میں ایک چھٹی تو دی جاتی ہے لیکن وہ اسٹیشن ریسٹ ہوتی ہے مطلب وہ اس ریسٹ کے دوران بھی اپنے گھر نہیں جا سکتے۔ جناب وزیراعظم صاحب ملازمین کی فلاح و بہبود کے اقدامات کی ضرورت تھی۔ سیاسی پریشر ختم کر کے کام کرنے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرنے جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔ آپ کو چاہیے تھا کہ وفاقی ملازمین کے ساتھ ساتھ صوبائی ملازمین کے لیے بھی ہفتے کی چھٹی کا اعلان کرتے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہفتے میں 40 گھنٹے کام کا قانون رائج ہے۔ چالیس گھنٹے کام ہفتے کے پانچ دنوں میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے ملازمین کی غیر حاضری کی شرح بھی کم ہو گی اور ملازمین دل جمعی کے ساتھ اپنے فرائض بھی سر انجام دیں گے۔ آپ کی جماعت کے بارے میں عمومی نظریہ یہ پایا جاتا ہے کہ یہ ملازمین کو دباؤ میں رکھتی ہے اور کاروباری افراد کو سپورٹ کرتی ہے۔ آپ کے اس اقدام سے اس نظریے کو بھی تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جو کہ آنے والے الیکشن میں ملازمین کے ووٹ بینک کی صورت میں آپ کی جماعت پر اثرانداز ہوگی۔ آپ کی حکومت سے پہلے وفاقی ملازمین کی چھٹی تھی اور صوبائی ملازمین کی چھٹی نہیں تھی یہ بھی غلط تھا۔ آپ نے بجائے اس کو برابر کرنے کے وفاقی اداروں میں بھی تقسیم پیدا کردی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments