کپتان کے خلاف امریکی سازش کی وجہ سامنے آ گئی


جو بائیڈن اور اس کا فون جائیں بھاڑ میں۔ وٹس ایپ پر موصول ہونے والی میمز اگر بہت ستانے لگتیں تو کپتان وٹس ایپ آف کر دیتے اور پرانی یعنی ڈاک خانے کے دور کی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیتے۔ چند لکیریں کھینچتے اور خط لفافے میں بند کر کے ایک طرف رکھ دیتے۔ اپنے دکھ بھول کر عوام کے سکھ کی فکر کرنے لگتے جو بہت کم رہ گئے تھے۔ امریکہ تو اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار چکا تھا۔ وہ (امریکہ) ٹرمپ کے الیکشن ہارنے، پیوٹن کے یوکرین پر حملہ کرنے اور عمران کی ناراضگی جیسے عالمی مسائل میں بری طرح پھنس چکا تھا۔ ادھر امریکی سلطنت شدید خطرے کی زد میں تھی اور ادھر کپتان کی حکومت مکمل محفوظ تھی۔ کیونکہ کپتان کو اپنی خفیہ سمجھ بوجھ کا فیض حاصل تھا اور اپوزیشن کو پر مارنے کی اجازت تھی نہ جرات۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی حکومت بہت غیر مقبول ہو چکے تھے۔ غلطی جو بائیڈن کی اپنی ہی تھی۔ انہوں نے صدارتی الیکشن جیتنے اور حلف اٹھانے کے بعد سے ابھی تک ہمارے کپتان کو فون ہی نہیں کیا تھا۔ ہمارا کپتان تو خوش تھا۔ اسے تو اللہ تعالی نے اپنے (کپتان کے ) نظریاتی یار ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر جو بائیڈن فون کر لیتا تو اس نے کپتان کے حسن و جمال، قوت نباہ (یاری نبھانے کی طاقت) اور شاندار گورننس کی تعریف تو کرنا ہی تھی، ایسے میں کپتان کو بھی چارو ناچار کچھ تو کہنا ہی پڑتا۔ پھر یہ بات اگر نکل جاتی تو ڈونلڈ ٹرمپ ناراض ہو جاتے یا برا مان جاتے۔

ڈونلڈ ٹرمپ ایک عبادت گزار مذہبی آدمی ہے کوئی لبرل ٹائپ تو ہے نہیں۔ کپتان کے امریکی دورے کے دوران اس نے ہی تو کپتان کو ورلڈ کپ دوبارہ جیتے جیسی فیلنگ دی تھی۔ کپتان کی کابینہ نے ائرپورٹ پر کپتان کو خوش آمدید کہہ کر اس ورلڈ کپ جیتنے والی فیلنگ کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ اتنا گہرا کہ کپتان کے لیے (اپنے ) اندر دیکھنا تو ممکن ہی نہ رہا۔ باہر وہ پہلے ہی نہیں دیکھتا تھا کیونکہ باہر دیکھنے کے لیے ہی تو اس نے شیخ رشید رکھا ہوا تھا جو باہر دیکھتا اور کپتان کے کان میں ڈال دیتا۔

بہرحال جو بائیڈن کا فون نہیں آیا اور نتیجہ سامنے تھا۔ کپتان خوش اور مزید مقبول جب کہ جو بائیڈن اپنی گرتی ہو مقبولیت پر پریشان۔ کپتان کو پرواہ ہی کب تھی۔ وہ تو بس واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر سے جو بائیڈن کا حال احوال لیتا رہتا تھا اور ساتھ ہی سفیر کی نالائقی پر اس کی سرزنش کر دیتا تھا۔ پاکستانی سفیر بے چارہ اپنی ناکامی پریشان تھا اور ایک امریکی آفیشل کو کہہ بیٹھا کہ یار ایک فون ہی کی تو بات تھی اور یہ بھی کہ آپ لوگوں نے تعاون نہیں کیا اور میرے کیریئر پر ایک دھبہ لگا دیا۔

ناراضگی کے اس اظہار کے جواب میں امریکی سفارت کار نے سازش کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا۔ اس نے بتایا کہ تمہارا کپتان ایک عالمی سطح کا لیڈر بن گیا ہے اور اس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر امریکہ اور جو بائیڈن کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے اور کپتان اور پاکستان کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تھریٹ امریکہ کو قابل قبول نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کپتان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پیوٹن کو سمجھائے گا تاکہ وہ یوکرین پر حملہ نہ کرے لیکن کپتان نے یوٹرن لے لیا اور پیوٹن کو یوکرین پر حملے کی اجازت دے دی۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ سری لنکا نے اپنے آپ کو دیوالیہ ڈیکلیئر کر دیا ہے۔

اس لیے امریکہ اس وقت بہت پریشان ہے اور اس کے پاس دنیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے کپتان کو روکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ کپتان کو روکنے کی خاطر امریکہ نے سازش کی۔ اب سازش ممکن تھی کیونکہ کپتان کو وہ پہلے والا تحفظ میسر نہ تھا۔ اس کے لیے سیاست دانوں اور اہم اداروں کے لوگوں میں ڈالر، ویزے اور چاکلیٹ تقسیم کیے گئے۔ بلاول اور مولانا فضل الرحمن نے تو حلوہ سمجھ کر چاکلیٹ کھائے اور ڈانس بھی کیا۔

تو یوں کپتان کی حکومت امریکی سازش کا شکار ہوئی اور اب پاکستان بالکل ایسے غلام ملک ہو گیا جیسے 1940 میں تھا۔ کپتان نے بہادری کے ساتھ آزادی کی جدوجہد شروع کر دی ہے لیکن پریشانی یہ ہے کہ اس دفعہ شجاعت ہے نہ شجاع۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments