اک ردائے سایہ فگن


جب ایک ماں پیار سے اپنی بیٹی کے بال سہلاتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کرتی ہے کہ تم میرا فخر ہو، میرا مان ہو، میری سب سے قیمتی متاع ہو، تو وہ اپنی بیٹی کے لیے کائنات کا ایسا روشن معتبر حوالہ بن جاتی ہے، جو بیٹی کے کردار میں پختگی، اعتماد میں مضبوطی اور شخصیت میں کسی مقدس نور کی مانند دمکتا ہے۔

جب ایک ماں اپنے ہاتھ سے بنے، محبت بھرے نوالے اپنے بیٹے کو کھلاتے ہوئے، سمجھاتی ہے کہ زندگی میں ہمیشہ حق کا ساتھ دے، کمزور کا تحفظ کرے، رشتوں کو خلوص سے جوڑے اور یہ یاد رکھے کہ دنیا کی ہر عورت اس کے لیے ماں سی تکریم لے کر آئی ہے، تو وہ بیٹے کے لیے زمانے کی بہترین استاد بن جاتی ہے جو اس کے وقار میں بلندی، فکر میں پختگی اور کردار میں عظمت کا تانا بانا بنتی ہے۔

جب ایک ماں بیٹی کی پیدائش پر پرسہ دینے والے غمزدہ چہروں کو، سرشاری اور فخر سے بتاتی ہے کہ اس کے لیے بیٹی بوجھ نہیں، بلکہ رحمت اور روشنی سے بنا تقدس کا ایسا حوالہ ہے، جو خدا اپنی محبت کی بشارت کی صورت، صرف بندگان خاص پر نازل کرتا ہے، تب وہ اس ننھے وجود کے لیے ایسی پختہ ڈھال بن جاتی ہے جو دنیا کے طعنہ زدہ نشتروں کو، اپنی پشت پر سہتی ہے اور اس ننھی کونپل کو اپنے سینے سے لگائے، نرم آغوش میں چھپائے، اس کی بقاء و سیرابی کے لیے، اپنی ممتا کے ٹھنڈے میٹھے چشمے پوری آب و تاب سے جاری کرتی ہے۔

جب ایک ماں کسی دور دراز قصبے میں، دیہات کے کشٹ بھرے کٹھن ماحول میں، اپنے بچوں کے افسر بننے کا خواب دیکھتی ہے تو اس کی تعبیر کے لیے اپنی شخصیت کے سب ٹکڑے داؤ پر لگا دیتی ہے، وہ اپنے پرانے آنچل سے ان کے نئے بستے سیتی ہے، اپنی جھریوں بھری آنکھوں میں ان کے روشن مستقبل کے خواب بنتی ہے، اپنے پیٹ کی بھوک مار کر ان کے تعلیم کے اسباب پورے کرتی ہے اور پھر بڑا سا دل کر کے انھیں میلوں دور شہر میں یہ جانتے بوجھتے بھی پڑھتے بھیج دیتی ہے کہ افسر کبھی قصبوں، دیہاتوں میں لوٹ کر واپس نہیں آتے۔

جب ایک ماں سرحد پہ پہرا دیتے سپاہی کے لیے، اپنے ہاتھ سے بنے پکوانوں کے ہمراہ، محبت اور یاد بھرے پیغام بھیجتی ہے تو اس میں اپنے دل کا حال کم لکھتی ہے اور اپنے جگر گوشے کو سرحد کے گرم و سرد سے بچنے کی تلقین نما التجا زیادہ لکھتی ہے۔ وہ اسے وہ تمام دعائیں بھیجتی ہے جو اس کے وجود پرامن و عاطفیت کے سائے کو دراز کر سکیں، اس کے بن لکھے لفظوں میں کفن کے کھڑکھڑاتے کپڑے کا خوف زیادہ دھڑکتا ہے۔ ان سادہ محبت آمیز پیغامات میں جو بات کہیں نہیں لکھی ہوتی، وہ ممتا کی بیٹے کو فقط ایک نظر جی بھر کر دیکھ لینے کی وہ محبت بھری آس ہوتی ہے، جس کا وہ روز چپکے چپکے دل میں ورد کرتی ہے۔

جب ایک عورت ماں بنتی ہے، تو دنیا کو حیرت سے تکتے ننھے وجود کو، اپنی شفیق بانہوں میں تھام کر، اس کی پیشانی کو بوسہ دیتی ہے، تو وہ اس ننھے وجود کے لیے اپنائیت اور محبت بھرے لمس سے گندھا، اک ایسا مقدس وجود بن جاتی ہے، جس کے ہر انگ سے مامتا کے میٹھے محبت بھرے چشمے امنڈتے ہیں۔ وہ ننھی ناتواں انگلیوں کو جب اپنے جادو بھرے لمس سے چھوتی ہے تو ان میں زندگی کی رمق جاگ اٹھتی ہے، اس کی محبت بھری آغوش بلکتی آوازوں کو سکون بخشتی ہے، ایک ننھے منے قدم کے اٹھنے پر اس کا نہال ہوتا خوشی سے دمکتا چہرہ، روشن چمکتی آنکھیں اور کھلکھلاتی سرشار مسکان دنیا کے تمام مقدس عجائبات کو مات دے جاتی ہے۔

اور جب یہی ماں اولاد کی سرکشی، نارسائی و نافرمانی کا عذاب سہتی ہے تو زباں سے کبھی کوئی شکوہ نہیں کرتی، مبادا کہ اس کے منہ سے نکلے لفظ اس کی نازوں پلی اولاد کی، کہیں گرفت نہ کر جائیں۔ وہ سخت باتوں، تلخ لہجوں اور بد تر رویوں کو، بوڑھی جھریوں بھری آنکھوں کے کناروں سے نکلے نمکین پانیوں کی صورت، اپنے بوسیدہ آنچل میں، کانپتے ہاتھوں سے جذب کرتی جاتی ہے۔ اس کا دل تلخ رویوں اور ترش لہجوں کے نشتروں سے داغے گئے زخموں کے درد سے بھر بھی آئے تو، وہ اپنے پیاروں کی امان مانگتی ہے۔ تب وہ کائنات کی اس دیوی میں تبدیل ہو جاتی ہے جو فقط دینا جانتی ہے، لینا نہیں۔

جب ایک ماں، اپنی اولاد کو یادوں اور پچھتاووں کے ہمراہ بلکتا چھوڑ کر آسمان کی حدوں میں پرواز کرتی ہے، تو اضطراب سے بار بار پیچھے مڑ کر انھیں تکتی جاتی ہے، ان کے روتے حسرت زدہ فریاد کرتے چہرے، اس کی پرواز میں خلل ڈالتے ہیں، وہ بے چینی سے آسمان میں چکراتے ہوئے ایک ایسے روشن ستارے میں تبدیل ہوجاتی ہے، جو اپنے پیاروں کی محبت میں دعا بن کر ہمہ دم مضطرب ہو کر، محبت سے ٹمٹماتا ہے۔

جب ایک عورت ماں بنتی ہے تووہ خدا کی محبت کا عکس بن کر، ابدیت کی ایسی روشنی میں تبدیل ہوجاتی ہے، جو کائنات کو نور کے مقدس ہالے کی صورت اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments