محبت کی فراوانی


محبت کی کوئی تھاہ نہیں اور نہ ہی اس جذبے کا کوئی انت ہے۔ اس سمندر کا کوئی کنارا نہیں۔ یہ وہ چشمہ ہے جس کے سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے۔ یہ وہ نغمہ ہے جس کی لے اور دھن ہمیشہ سماعتوں کے لیے جاں فزا ہوتی ہے۔ کینہ پرور لوگوں سے گریز کیجیے۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔ ہر جھگڑے اور فساد سے اعراض برتیے۔ جسے آپ کی بات اور لفظوں سے خوشبو نہیں آتی اس پر وقت ضائع مت کیجیے۔ اگر یقین نہیں آتا تو محبت بانٹ کر دیکھیے۔

جیسے جیسے آپ بانٹتے جائیں گے ویسے ویسے یہ بڑھتی جائے گی۔ اگر آپ، اپنے من کو ستھرا کرنا چاہتے ہیں یا اپنے دل سے نفرت، حسد، کینہ، تکبر، بغض، خوف، انتقام اور خود پسندی کو نکال کر اپنا تزکیہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی حل کہ محبت کی مقدار کو بڑھا دیجیے۔ آپ جوں جوں محبت کو بڑھاتے جائیں گے توں توں آپ ستھرے اور ہلکے پھلکے ہوتے جائیں گے۔ شکوے اور شکایت کو مستقل طور پر اپنے اوپر سوار مت کیجیے۔ شکر کو شیوہ زیست بنائے کیوں کہ یہی حقیقی مردانگی ہے۔

ہر وقت مینڈک کی طرح بے معنی اور عمل سے خالی ٹر ٹر پر وقت اور اپنی قوت ضائع مت کیجیے۔ بے معنی اور عمل سے خالی گفتگو من کی توانائی کا ضیاع ہی ضیاع ہے۔ فضول مت سوچیے۔ اس سے خواہ مخواہ کے تفکرات آپ کے دماغ کی بے پناہ قوت کو زائل کر دیں گے اور نتیجتاً آپ کا جسم توانائی سے خالی ہو جائے گا۔ اس وجہ سے آپ علالت کو اپنے اوپر غلبہ پانے سے روک نہیں سکیں گے۔ دماغی قوت کے خزانے کو خیالی معرکہ آرائیوں میں خرچ مت کیجیے، اس طرح کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا۔ کسی کے لیے بھی منفی اور انتقامی کارروائیوں کا کبھی بھی کوئی منصوبہ یا خیال ذہن میں مت لائیے۔ ہر منفی خیال کو فوراً جھٹک دیجیے۔

نفس بہت بڑا دھوکے باز ہے خواہ مخواہ اندیشہ ہائے دور دراز میں الجھائے رکھتا ہے۔ آپ کا ذہن آپ کی محفوظ کردہ توانائی کا خزانہ ہے۔ اپنے خزانے کو بے مقصد مت لٹائے۔ ہمیشہ مثبت غور و فکر اور مثبت عمل کے لیے منصوبہ بندی کیجیے اور جتنا جلدی ممکن ہو اچھے خیال پر عمل پیرا ہو جائیے۔ زندگی کا پھول محبت کے پانی سے ہی کھل سکتا ہے۔ اسے منفی جذبات و احساسات کا گدلا پانی مت دیجیے۔ ورنہ یہ پھول ہنسی مسکراہٹ سے کھل اٹھنے کے بجائے مرجھا جائے گا اور ماتھے پر وقت سے پہلے شکنیں نمودار ہو جائیں گی۔

آپ کا چہرہ آپ کی زندگی کے پھول کا آئینہ ہے۔ اسے غلط خواہشات اور منفی رویوں سے دھندلا مت ہونے دیں۔ ناخوش رہنے سے آپ محبت سے خالی ہو جائیں گے اور یاد رکھیے محبت کرنے کی اہلیت سے عاری ہونے سے بڑا کوئی مرض نہیں۔ محبت کرنے کی لیاقت سے خالی ہونے سے بڑا کوئی جرم نہیں۔ محبت سے محروم ہونے سے بڑھ کر کوئی محرومی نہیں۔ دیکھیں زندگی قدم قدم پر ایسے واقعات و حادثات آپ کے سامنے لائے گی جس سے جام محبت چھلک سکتا ہے اور بے احتیاطی کرنے پر یہ جام گر کر ریزہ ریزہ بھی ہو سکتا ہے۔

اس لیے اپنی زندگی کو جام محبت سے خالی مت ہونے دیں۔ نہ ہی اسے چھلکنے دیں۔ اگر جام محبت خالی ہو گیا تو زندگی کا جام نفرت، حسد، بغض، شکوہ شکایت، کینہ، انتقام، خوف اور تکبر جیسے زہر سے لبریز ہو جائے گا۔ اگر خدانخواستہ جام زندگی زہر سے بھر گیا تو آپ کی زندگی جیتے جی عذاب ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے آس پاس رہنے والوں کے لیے آپ وبال جان بن جائیں گے۔ اس لیے کسی بھی صورت میں کسی بھی مشکل میں اپنے آپ کو محبت سے خالی مت ہونے دیں۔

محبت کو اصول زیست بنا لیں گے تو زندگی پھول ہو جائے گی ورنہ حیات کو کانٹوں سے بھرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ اور کانٹے بھی ایسے جن کو اگر آپ پلکوں سے بھی چننا چاہیں گے تو چن نہ پائیں گے۔ جب آپ محبت کے سحر سے نکل جائیں گے تو ڈپریشن اور اینگزائیٹی کا دیو آپ کو قید میں کر لے گا۔ پھر آپ خود بھی ایک دیو بن جائیں گے۔ ایسے دیو جو ہر وقت ”آدم بو، آدم بو“ پکارتے رہیں گے۔ اپنے من میں جھانکیے اور دیکھیے آپ اپنوں اور غیروں کے لیے کس قدر جام محبت لبریز کیے چشم براہ ہیں۔

ایسا کرنے سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ محبت سے لبریز ہیں یا خالی ہو چکے ہیں۔ اگر خالی ہو چکے ہیں تو دیر مت کیجیے آج سے ہی اپنے جام کو قطرہ قطرہ محبت کے آب حیات سے بھرنا شروع کیجیے اور آج سے ہی اپنے من کے زہر کو قطرہ قطرہ باہر نکالنے کی تگ و دو میں جت جائیے۔ اگر آپ جینا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی راز ہے کہ شکوے اور شکایت کے ہر موقع کو کوشش کر کے ترک کر دیجیے اور محبت کے کسی لمحے سے بھی گریز مت کیجیے۔

زندگی میں نفرت کرنے کے لیے کسی سعی کی ضرورت نہیں ہوتی نفرت اور حسد اور اسی قبیل کے سارے منفی جذبے تو خود بہ خود چلے آتے ہیں۔ جب کہ محبت کے لیے اپنے آپ سے سخت جنگ کرنا پڑتی ہے۔ اپنی انا کے جن پر غلبہ پائے بغیر کوئی دوسروں سے محبت اور ہمدردی کے جذبے سے سرشار نہیں ہو سکتا۔ انسانیت کی معراج دوسروں سے تہہ دل سے محبت کرنے میں ہے اور انسانیت کے لیے باعث شرمندگی یہ ہے کہ ہم نفرت کرنے لگ جائیں۔ نفرت کے لیے کوئی جواز مت ڈھونڈیں اور محبت نہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ مت بنائیں بلکہ بغیر کسی وجہ سے محبتوں کو تقسیم کیجیے۔ کہتے ہیں کہ ”محبت کی روٹی ہر روز تازہ پکانا پڑتی ہے“ ۔ لہذا کو شش کیجیے محبت کی روٹی کبھی باسی نہ ہو۔ جب کوئی آپ کے لیے نفرت کی آگ جلائے آپ اس آگ پر اس کے لیے محبت کی روٹی پکا لیں تو یقین جانیں سب جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔ اقبال نے بھی کیا خوب کہا ہے ؛

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی

امان اللہ محسن
Latest posts by امان اللہ محسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments