مئی کے اواخر میں کیا ہونے والا ہے؟


عمران خان کی حکومت کو ختم ہوئے کم و بیش ایک ماہ ہونے کو ہے اگرچہ عمران خان امریکی سازش کے تحت اقتدار سے نکالے جانے کا بیانیہ لے کر عوام آئے ہیں۔ وہ سیاسی بازار میں اپنی پونے چار سالہ کارکردگی فروخت کرنے کی بجائے آزادی و خود مختاری کا نعرہ لگا کر عوام کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری کا موقف قدر مختلف ہے۔ انہوں نے برملا کہا ہے۔ کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ناراض نہ ہوتی تو آج ہم حکومت میں ہی ہوتے جب کہ سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی دل کی بات کہہ دی ہے ہم سے بھی کہیں غلطی ہوئی ہے۔

عام تاثر تھا کہ عمران خان اگست 2022 ء کے اوائل میں عوام کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دیں گے لیکن اب انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے۔ ان کے خیال میں حکومت کے خاتمہ کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ لہذا وہ صورت حال میں دباؤ کا حربہ استعمال کر کے قبل از وقت انتخابات کروانے میں کامیاب ہو گئے تو پی ٹی آئی دوبارہ بر سر اقتدار آ سکتی ہے۔ اس طرح وہ نومبر 2022 ء میں اپنی مرضی کی عسکری قیادت کی تقرری کر سکیں گے۔

ان کا پورا سیاسی تھیٹر عسکری قیادت کی تقرری کا موقع حاصل کرنا ہے۔ لہذا انہوں نے زمینی حقائق کا تجزیہ کیے بغیر مفروضہ کی بنیاد پر عوام کو مئی 2022 ء کے اواخر میں اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی ہے۔ عمران خان نے 20 لاکھ لوگوں کو اسلام آباد پہنچنے کا ٹارگٹ دیا ہے جو ایک ناممکن بات ہے۔ وہ 14 اگست 2014 ء میں ان تمام قوتوں کی امداد کے باوجود 15، 20 ہزار سے زائد کارکن اسلام آباد اکٹھے نہیں کر پائے تھے۔ اب جب کہ ان کی پشت پر وہ قوتیں بھی نہیں ہیں جن کی ان کو 2014 ء میں آشیر باد حاصل تھی وہ کیونکر پہلے سے زائد لوگ اکٹھے کر سکیں گے؟

25 جولائی 2018 ء کے متنازعہ انتخابات کے اعداد و شمار کے مطابق پی ٹی آئی کو 32 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جب کہ مسلم لیگ (ن) کو 24 فیصد ووٹ ملے اس لحاظ سے پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) پر 8 فیصد کی برتری حاصل تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت گرنے سے قبل اس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس کی مقبولیت کا گراف 24 فیصد تک چلا گیا جب کہ اس عرصے کے دوران مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بڑھ کر 30 فیصد تک جا پہنچی یہ سروے بین الاقوامی شہرت کے حامل گیلپ سروے کرنے والے ادارے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئین ریسرچ (ipor) کا تین ماہ کی کی بنیاد پر تیار کردہ ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے بعد ہمدردی کی وجہ سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں چار پانچ فیصد کا اضافہ ہو ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف 30 فیصد پر ٹھہرا ہوا ہے جب کہ پی ٹی آئی 28، 29 تک پہنچ کر مسلم لیگ (ن) کے لئے خطرہ بن رہی تھی لیکن مسجد نبوی ﷺ کی حدود میں پیش آنے والے نا مناسب واقعہ نے پی ٹی آئی کی مقبولیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

پی ٹی آئی جس نے 11 اپریل 2022 ء کے بعد جارحانہ کھیل کھیل شروع کر دیا تھا۔ اب ایک بار پھر بیک فٹ پر آ گئی ہے۔ مقبولیت کا گراف اوپر نیچے ہو تا رہتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس جماعت کی جس صوبہ میں مقبولیت زیادہ ہو وہ سب سے زیادہ نشستیں بھی وہیں سے حاصل کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک پورے ملک پر پھیلا ہوا ہے جس کے باعث وہ مطlوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے گی جب اس کی سب سے بڑی مد مقابل جماعت مسلم لیگ (ن) کے 30 فیصد ووٹ بینک کا زیادہ حصہ پنجاب میں ہے۔ جہاں پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) سے 10 فیصد پیچھے ہے۔

2018 ء کے انتخابات میں جہاں جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ کے شہری علاقوں میں پی ٹی آئی کو اچھی خاصی نشستوں کا تحفہ دیا گیا تھا۔ اب یکسر صورت حال تبدیل ہو گئی ہے جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی میں جانے والے مسلم لیگی اپنی جماعت میں واپس آرہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے ان 23 الیکٹیبلز کو بھی پارٹی ٹکٹ دینے کا اصولی فیصلہ کر رکھا جنہوں نے عمران خان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم اپنی چھینی ہوئی نشستیں واپس لینے کی پوزیشن میں چلی گئی ہے۔ جمعیت علما اسلام اور جماعت اسلامی کا پورے ملک میں پانچ چھے فیصد ووٹ بینک پھیلا ہونے کی وجہ سے وہ نتائج حاصل نہیں کر پاتیں جو ایم کیو ایم ایک ہی جگہ اپنا ووٹ بینک مجتمع ہونے کی وجہ سے حاصل کر پاتی ہے۔ اسی طرح اگر کے پی کے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گئی تو پی ٹی آئی کے لئے بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

آصف علی زرداری نے زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر جہاں پنجاب کی گورنری مانگ رکھی ہے۔ وہاں انہوں نے پنجاب کی قومی اسمبلی کی 10 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) سے اپنے امیدوار نہ کھڑا کی استدعا کی ہے۔ ملکی سیاست میں آئندہ مل کر چلنے کے لئے نواز شریف کو میثاق جمہوریت 2۔ پر دستخط کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے جسے انہوں نے قبول کر لیا ہے۔ شنید ہے۔ اس معاہدہ کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام کے درمیان انتخابی اتحاد ہو جائے تو با آسانی انتخابی معرکہ مار لیں گی۔

دوسری طرف عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے امریکہ مخالف بیانیہ کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ لہذا اس وقت عام انتخابات کرانے کا سب سے بہترین وقت ہے جب کہ دوسری طرف کل تک کی اپوزیشن جماعتیں جو اب حکومت میں بیٹھی ہیں۔ مناسب وقت پر انتخابات کرانے کی بات کر رہی ہیں۔ اگلے سال انتخابات کرانے کا سب سے بڑا جواز مردم شماری کا ہے جو دسمبر 2022 ء سے قبل مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں عمران خان کا دوبارہ اقتدار میں آنے اور نومبر 2022 میں اپنی مرضی کی عسکری قیادت کی تقرری کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔

سابق وفاقی داخلہ شیخ رشید احمد یہ بات برملا کہہ رہے ہیں کہ مئی کے اواخر میں پی ٹی آئی عام انتخابات کرانے کا مطالبہ تسلیم نہ کرا سکی تو اس کی سیاست تباہ و بر باد ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اداروں کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتے اگر لڑائی ہو گئی تو وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ عمران خان کی سیاست لپیٹ دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ ملکی سیاست میں عمران خان کا کردار ان کے طرز عمل سے وابستہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ملکی سیاست میں اپنے مقام کے حصول کے تصادم کی پالیسی اختیار کرتے ہیں جس قدم قدم پر احتیاط کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑتے اور ماضی قریب کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ یہی دو باتیں ان کے ملکی سیاست میں مقام کا تعین کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments