بات نکلے گی تو پھر۔۔۔

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


سیاست کا بور ترین مضمون، دلچسپ ہوتے ہوتے اس قدر دلچسپ ہو چکا ہے کہ اب اس کے علاوہ دور دور تک کسی تفریح کا نام بھی نظر نہیں آتا۔

عید پہ نئی فلموں سے زیادہ انٹرویو سنے اور دیکھے گئے۔ چاند رات اور عید کا دن بھی سیاست ہی میں گزرا۔ کچھ دوستوں کی سیاسی پوسٹیں دیکھ کر ان سے عید نہ ملنے کے فیصلے بھی کئے گئے، یہاں تک کہ ایک منگنی بھی سیاسی مخالفت کی نذر ہوئی۔

خان صاحب واقعی کرسی سے اتر کے اتنے خطرناک ہو گئے کہ گلی گلی میں سر پھٹول ہو گئی۔ پنجاب حکومت کی گاڑی میں ابھی تک مال گاڑی کے ڈبے ہی لگے ہوئے ہیں اور پٹڑی پہ کچھ لوگ ایسے پسرے پڑے ہیں کہ ابھی تک کابینہ نہیں بن پائی۔ عجیب سا کھیل چل رہا ہے، عقل دنگ ہے۔

ایسے میں صحافیوں کی جان مشکل میں ہے۔ خان صاحب جس طرح عوامی رابطہ مہم چلا رہے ہیں اسے نہ سراہیں تو سوشل میڈیا پہ پٹیں گے اور سراہیں تو کس بات کو سراہیں؟ خبروں میں رہنے کا فن سیاست نہیں، عوام کو بے وقوف بنانا بھی سیاست نہیں۔ صرف اقتدار حاصل کرنا بھی سیاست نہیں، سیاست میں آکے کسی واضح مینو فیسٹو کے بغیر دیواروں سے سر ٹکرانا بھی سیاست نہیں۔

لیکن جب عوام کا ایک جم غفیر جو کہ یقیناً بریانی کے ڈبوں اور ہزار روپے کے نوٹ پہ لائے ہوئے عادی جلسہ بازوں کی بجائے سچ مچ کے لوگ ہیں کسی لیڈر کی ہر بات پہ آمنا و صدقنا کہتے ہیں تو ایسے میں کوئی کیا کہے؟

لیڈر تو غلط یا درست ہو سکتا ہے اتنے بہت سے لوگ کیسے غلط ہو سکتے ہیں؟ کون سا ایسا خلا تھا جسے خان صاحب نے کسی بھی واضح سیاسی نصب العین کے بغیر پر کیا؟ اتنے برس کی ناکام حکومت کے بعد بھی لوگ ان کی کمزور سی کہانی پہ یقین کر کے اپنے پیاروں سے لڑتے پھرتے ہیں؟

لیڈرشپ کا یہ خلا بھٹو کے بعد سے اب تک چلا آرہا تھا۔ میں بھٹو صاحب کی بہت معتقد ہوں مگر ان کی سیاست میں بھی تحمل کی بجائے عوامی مزاج کو بھڑکا کے وقتی فائدہ حاصل کرنے کا عنصر موجود تھا۔ گو ان کے پاس ایک بڑا وژن تھا اور ایک مضبوط پڑھی لکھی ٹیم تھی جس سے خان صاحب محروم ہیں۔

مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی کوریج کے لیے گیلری میں بیٹھی تھی تو نیچے جو لوگ نشستوں پہ ‘پڑے’ ہوئے تھے ان میں سے کوئی بھی کہیں سے بھی لیڈر نہیں لگ رہا تھا۔ سیاست میں آنے والی شخصیات نے نہ تو کبھی اپنے لباس، گفتگو اور انداز نشست و برخاست کو دیکھا اور نہ ہی کوشش کی کہ انھیں ان کی شخصیت کے باعث عوامی مقبولیت ملے۔

علم، عمل، کردار اور لباس کے ساتھ اپنی شخصیت کو صیقل کرنے کی بجائے برادری کے پکے ووٹ اور دیگر طریقوں سے سیاست میں آکے نشستیں حاصل کرنے اور اپنے اپنے کجے بھرنے کے علاوہ اکثریت نے کبھی کچھ نہ سوچا۔

بدلتا ہوا پاکستانی معاشرہ کیسا لیڈر چاہتا تھا؟ یہ بات کسی کے ذہن میں نہ آئی۔ شاید بے نظیر بھٹو قتل نہ ہوتیں تو لیڈر شپ کا یہ بحران جنم نہ لیتا۔

سیاست کو بھی صحافت کی طرح بس ایک کام چلاؤ میدان سمجھا گیا جس کے لیے نہ تو تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی تربیت کی۔ صحافت کے بارے میں یہ غلط فہمی تو جلد ہی دور ہو گئی لیکن سیاست میں یہ خیال اب بھی راسخ ہے۔

عمران خان کے سیاست میں آنے، وزیراعظم بننے اور خطرناک ہو جانے کے جتنے بھی فائدے اور نقصان ہیں وہ ایک طرف رہے، دوسری طرف یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی نئی نسل اب جس طرح سیاست کی طرف متوجہ ہوئی ہے یقیناً آنے والا وقت ملکی سیاست کی شکل تبدیل کر دے گا۔ لیڈر شپ کے خلا کو پر کرنے کے لیے انھیں کپتان ملا تو کھمبوں کو ووٹ دے دے کے تھکے ہوئے لوگوں کو یہ بھی ایک ‘ریلیف’ لگا۔

عمران خان صاحب کے پاس چونکہ سوائے ایک انتقامی منشور کے کچھ نہ تھا اور انھوں نے جلد بازی میں اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیے اس لیے ان کا دور کوئی یادگار زمانہ نہیں رہا۔ سیاست میں بد زبانی کو بھی اس دور میں بہت فروغ ملا لیکن جب یہ گرد بیٹھ جائے گی تو مجھے یقین ہے عوام میں حقیقی سیاسی شعور بیدار ہو گا۔

نہ صرف عوام بلکہ اب سیاست دانوں کو بھی سیاست کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ ڈیرے میں بیٹھ کے بڑھکیں مارنے سے آگے سوچنا ہو گا۔ شخصیات پہ سیاست کرنے کی بجائے نظریات اور نظریات بھی وہ جو عوام کے لیے فائدہ مند ہوں کی سیاست کرنا ہو گی۔

سوشل میڈیا پہ ایک دوسرے سے برسر پیکار عوام ،جلد ہی سمجھ جائیں گے کہ سیاسی جماعتوں کے مینی فیسٹو دیکھ کر انھیں سمجھ کر ان کا ساتھ دینا ہے اور اگر ان کا لیڈر ڈیلیور کرنے میں ناکام رہا تو جواب بھی طلب کرنا ہے۔ یہ سب ہو گا کیونکہ بات ہو رہی ہے، بات ہوتی رہنی چاہیے، سیاسی عمل چاہے جیسے بھی چلے چلتا رہنا چاہیے۔

اسٹیبلشمنٹ بھی آسمان سے نہیں اتری، آپ کے میرے جیسے لوگ ہیں، تنقید ہوتی رہے گی تو معاملات بہتر ہوتے رہیں گے۔ آج گالی دینے والے کل دلیل بھی دیں گے۔ یہ بہت برسوں کا غصہ ہے، نکلتے نکلتے نکلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments