فوج کو کس کا خوف ہے؟


فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے پاک فوج کو ملکی سیاسی مباحث میں ملوث کرنے کی کوششوں کو مسترد کیا ہے۔ ایک بیان میں آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ’سیاسی مباحث میں فوج پر بے بنیاد اور اشتعال انگیز الزامات نہایت نقصان دہ ہیں‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاک فوج کو کن الزامات اور بیانات سے اچانک اتنا شدید خطرہ محسوس ہؤا ہے کہ اس پر ایک ایسا بیان جاری کیا گیاہے جس میں کسی لیڈر، صحافی یا تجزیہ نگار کو نامزد کرنے کی بجائے عمومی طور سے انتباہ جاری کیا گیا ہے۔

سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی کوئی شخص یا کچھ عناصر پاک فوج کو بدنام کرنے اور ملک میں بے یقینی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس کی نشاندہی کرنے یا قانونی طریقے سے باقاعدہ اس کی شکایت کرنے کا اہتمام کیوں نہیں کیا۔ فوج کے پاس اس حوالے سے متعدد آپشن ہیں۔ فورسز کے ایسے ارکان جن پر غیرمصدقہ الزامات عائد کئے گئے ہیں براہ راست ایسے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مریم نواز نے گزشتہ روز پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر نکتہ چینی کی اور انہیں عمران خان کی حمایت میں سیاسی اپوزیشن کا گلا دبوچنے کا قصور وار قرار دیا۔ جنرل فیض حمید اگر اس الزام کو خلاف واقع اور اپنی عہدے کی بجائے ذاتی حیثیت پر حملہ تصور کرتے ہیں تو ان کے پاس قانون کا راستہ کھلا ہے۔ ملک کا قانون فوجی اہلکاروں سمیت سب شہریوں کو ناجائز الزام تراشی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اس کے علاوہ پاک فوج کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ وہ وزارت دفاع کو ایسے منفی بیانات یاتبصروں کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے درخواست کرے کہ فوج کی شہرت اور کارکردگی کے نقطہ نظر سے ضروری قانونی کارروائی کی جائے۔ حکومت کے پاس ایسے عناصر کی بیخ کنی کرنے کے متعدد راستے موجود ہیں۔ لیکن پاک فوج کے ترجمان ادارے نے یہ راستہ اختیار کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی بلکہ ایک پریس ریلیز میں ناراضی کا اظہار کرکے انتباہ دینا کافی سمجھا ہے۔ کیا آئی ایس پی آر واقعی یہ سمجھتا ہے کہ قومی سیاست میں پاک فوج کے ماضی میں کردار کے پس منظر میں صرف ایک پریس ریلیز معاملات کو سدھار دے گی، سیاست دان براہ راست یا اشاروں میں فوج کی طرف انگلی اٹھانا بند کردیں گے اور اسی طرح صحافی و تجزیہ نگار بھی یہ تصور کرلیں گے کی فوج محض قومی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت کے مقدس مشن میں مصروف ہے۔ اور اب پریس ریلیز کے بعد اس کی طرف کوئی اشارہ کرنا درست رویہ نہیں ہوگا۔ بادی النظر میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقتدار سے محروم ہونے والی تحریک انصاف اور اس کی قیادت مسلسل فوج کی طرف اشارہ کرکے یہ الزام لگا رہی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد درحقیقت عسکری قیادت کی ملی بھگت سے کامیاب کروائی گئی تھی۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے ’ووٹ کو عزت دو‘ والے بیانیہ کے برعکس تحریک انصاف کا مقدمہ سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا مؤقف ہے کہ اس وقت ملک میں جو بحران موجود ہے، ا س میں ایک ہی نیکی و خیر کی طاقت ہے جو عمران خان اور ان کے ساتھی ہیں ۔ وہ اپنی ساری صلاحیتیں پاکستان کو خود مختار بنانے، خودداری سے جینے اور بیرونی اثر و رسوخ سے پاک رکھنے کے لئے صرف کررہے ہیں۔ اسی لئے عمران خان اب اپنے جلسوں اور پیغامات میں یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ نہ تو حکومت کے خلاف ہیں، نہ ہی فوج کے اور نہ ہی ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ امریکی سازش اور خود مختاری پر بیرونی حملہ کے خلاف قوم کو تیار کررہے ہیں۔ ان کے بقول ان کی لڑائی سیاسی اقتدار کی جنگ نہیں ہے بلکہ وہ قومی آزادی و خود مختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اسی لئے انہیں نہ تو کسی کا خوف ہے اور نہ ہی وہ کسی قیمت پر پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔

عمران خان نے ایبٹ آباد میں کی گئی تقریر میں خیر و شر کی اس لڑائی میں خود کو خیر اور حکومت کو شر قرار دیتے ہوئے’غیر جانبداری‘ کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیوٹرل تو صرف جانور ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے چئیرمین اور سابق وزیر اعظم کا یہ طرز بیان دراصل فوج کے اس مؤقف کو مسترد کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے کہ فوج موجودہ سیاسی صورت حال میں ’غیر جانبدار‘ ہے۔ وہ بڑی ڈھٹائی سے اسے دہرا رہے ہیں۔ اگرچہ عمران خان یہ کہتے ہیں کہ فوج پر الزام تراشی نہ کی جائے لیکن وہ اپنی تقریروں اور بیانات کے ذریعے فوج کو مورد الزام ٹھہرانے اور اس کے خلاف اشتعال انگیز مہم چلانے کا بھرپور مواد فراہم کرتے ہیں۔ ان بیانات کے بعد ان کے حامی سوشل میڈیا، یوٹیوب چینلز یا ٹاک شو مباحث میں فوج پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد یہ ہے کہ عمران خان چونکہ خیر کا نمائندہ ہے، اس لئے فوج کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت کرتی اور اس کی حکومت کو مستحکم کرنے کے کے لئے اقدام کرتی۔ یعنی تحریک انصاف فوج کو سیاست میں ملوث ہونے دعوت دے رہی ہے ۔ تاہم یہ شرکت تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لئے نہیں ہونی چاہئے۔

اس پس منظر میں یہ غلط فہمی بھی ختم ہوجانی چاہئے کہ عمران خان کے حامی جب سیاست اور فوج کے حوالے سے ناراضی کا اظہار کرتے ہیں تو وہ قومی معاملات میں فوج کے کردار سے انکار کرتے ہیں ۔ ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ یہ کردار عمران خان کو اقتدار میں رکھنے کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ اس کے برعکس موجودہ اتحادی حکومت اگرچہ فوج کی بالواسطہ اعانت سے ہی تحریک عدم اعتماد لانے اور عمران خان کی حکومت ختم کرکے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن اس کے تمام قائدین سیاست میں فوج کے کسی بھی کردار سے انکار کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کچھ لیڈر دو ٹوک الفاظ میں فوج کو صرف دفاعی مقصد کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے تک محدود رہنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن کچھ اپنی سیاسی زندگی کے لئے عسکری اداروں کی سرپرستی کے خواہاں ہیں لیکن اتحادی حکومت میں شامل کوئی بھی سیاسی پارٹی یوں کھل کر فوج کے سیاسی کردار کی حمایت نہیں کرتی جیسے تحریک انصاف اور عمران خان کرتے ہیں۔ اس حد تک تو فوج کو عمران خان کے ساتھ مل کرچلنا چاہئے اور ان کے خلاف عدم اعتماد لانے میں ’غیر جانبداری‘ کے ذریعے تعاون فراہم کرنے سے تائب ہوکر اب وہی مؤقف اختیار کرنا چاہئے جس کی طرف عمران خان اشارہ کررہے ہیں۔ یعنی ’ غلطی جس سے بھی ہوئی ہے۔ نئے انتخابات کے ذریعے ہی اس کی اصلاح کرلی جائے‘۔

اس قومی سیاسی منظر نامہ میں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کچھ سیاست دانوں، چند صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے عوامی فورمز اور متعدد مواصلات کے ذرائع جن میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے، براہِ راست، بالواسطہ اور اشاروں کنایوں میں مسلح افواج اور اس کی سینئیر لیڈرشپ کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔ غیر مصدقہ، توہین آمیز اور اشتعال انگیز اور بیانات کی روش انتہائی نقصان دہ ہے۔ افواج کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل میں شامل کرنے کی سختی سے مذمت کی جاتی ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ سب قانون کی پاسداری کریں گے اور افواج پاکستان کو ملکی مفاد میں سیاسی گفتگو سے دور رکھیں گے‘۔

پاکستانی سیاست کا بھاری پتھر ملکی فوج نے گزشتہ 7 دہائیوں سے اٹھایا ہؤا ہے۔ اسی لئے یک بیک اس بیان کے بعد کہ اب فوج نیوٹرل ہوچکی ہے، سیاسی لیڈر، صحافی یا تجزیہ نگار فوج کے سیاسی کردار کو فراموش کرکے خاموش نہیں ہوسکتے۔ یا تو فوج وہائٹ پیپر قسم کے حقائق پر مبنی کسی دستاویز میں ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے یہ اعلان کرکے کہ کن وجوہات کی بنا پر اب اس نے سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کہ اب کسی صورت اس فیصلہ سے روگردانی نہیں کی جائے گی۔ اس قسم کا انقلابی اقدام شاید فوج جیسے طاقت ور اور منظم ادارے کے لئے بھی ممکن نہ ہو ۔ البتہ ملک میں عام طور سے یہ تاثر موجود ہے کہ جیسے تحریک انصا ف کی حکومت کو 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے مسلط کیا گیا تھا اسی طرح، مارچ میں عمران خان کی سرپرستی سے انکار کرکے انہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا۔

پاکستان میں اگرچہ رائے عامہ سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے شدید تقسیم کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی رائے کے دونوں کروں میں سیاسی تبدیلی میں فوج کے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ گویا صرف تحریک انصاف ہی نہیں موجودہ اتحادی حکومت کے حامی بھی سیاست میں فوج کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان کا شہری اتنا شعور ضرور رکھتا ہے کہ سوچ سکے کہ متعدد پارٹیوں کے اتحاد نے تحریک انصاف کی غیر مقبول اور ناکام حکومت کا سارا ملبہ خود اپنے سر کیوں لے لیا؟ عمران خان وزیر اعظم ہاؤس سے نکل کر امریکی سازش کا بگل بجاتے خود کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کرنے لگے اور 4 سال تک 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانے والی سیاسی پارٹیاں، انتخابات ’ مقررہ وقت‘ پر کروانے پر اصرار کررہی ہیں۔ ان عوامل سے پردہ اٹھنا ضروری ہے کہ عام سیاسی حکمت کے برعکس ایک مشکل وقت میں سیاسی پارٹیوں نے انتخابات کی بجائے چند ماہ یا ایک سال کے لئے اقتدار سنبھالنے کی ضرورت کیوں محسوس کی ۔ اگر ان وجوہات کو پردہ راز میں رکھنے پر اصرار کیا جائے گا تو فوج اور سیاست کو الگ رکھنے کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانا یا اس دعوے کو درست مان لینا ممکن نہیں ہوگا۔

اس میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ امریکی سازش اور بیرونی مداخلت کا نعرہ لگاتے ہوئے عمران خان درحقیقت کسے نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایک پوڈ کاسٹ انٹرویو میں وہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ ان حالات سے بچنے کے لئے اپنی مرضی کا آئی ایس آئی کا سربراہ برقرار رکھنا چاہتے تھے تاکہ سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرسکتے۔ عمران خان کا حامی اگرچہ امریکہ کو ’سازش‘ کا الزام دیتا ہے لیکن وہ اس کی کامیابی کے لئے فوج کو ہی ذمہ دار سمجھتا ہے۔ آئی ایس پی آر اور عسکری قیادت کو سمجھنا پڑے گا کہ اپنے ہاتھوں کھڑے کئے ہوئے اس عفریت سے نجات پانے کے لئے کچھ حقائق کوسرکاری طور سے سامنے لانا ضروری ہوگا۔ اسی طرح فوج غیر ضروری تہمت اور ملک انتشار اور بے یقینی سے بچ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments