کیا مولانا طارق جمیل، عمران خان اور عامر لیاقت جیسے کرداروں کی کیس اسٹڈی ہونی چاہیے ہے ؟


کیا مولویوں کے ملک ریاض مولانا طارق جمیل، گلیمر اور لائٹ کے شوقین عمران خان اور عامر لیاقت جیسے کرداروں کی کیس اسٹڈی ضروری ہے؟

ملک ریاض ہمارے ملک کا بزنس ٹائیکون اور تعلقات استوار کرنے کے فلسفے کا امام ہے اور اپنی کرشماتی شخصیت کی بدولت ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کی بھرپور صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ ملک صاحب ریاست کے وہ محفوظ ترین ستون بن چکے ہیں جس کی اہمیت سے انکار تو درکنار محض پلک جھپکنے کی سی غفلت یا صرف نظری کا مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا، وہ اس حد تک اہم اسٹیک ہولڈرز کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔

اسی لیے ملک صاحب کی جیب ہمارے معاشرے کا وہ ”خزانہ گھر“ ہے جس میں ہر قسم کی جادوئی اشیاء یا چابیاں موجود ہوتی ہیں جن کا استعمال کر کے وہ ہر فولادی تالا کو کھولنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور مطلوبہ اہداف سلیمان کے جن آصف برخیا کی مانند پلک جھپکنے کی زحمت گوارا کرنے کی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ اس معاشرے میں ہر ایک کی ایک قیمت ہوتی ہے جسے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فوری طور پر ادا کر کے آگے چل پڑتا ہوں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ایسے معاشروں کا وتیرہ، جہاں معاشرتی ناہمواریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اسی لئے ایسے معاشروں میں مالا علی کردستانی، ڈیجیٹل دم درود کے گیانی، زبان کے جادوگر، گلیمر اور لائٹ کے ذریعے بے وقوف بنانے والے کھوکھلے حکمران اور ٹی وی اسکرین کا سہارا لے کر موقع کی مناسبت سے ہر مسلکی رنگ اختیار کر کے مداری کرنے والے کرتب باز بہروپیے کثرت سے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور معاشرتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ایسے ناہموار معاشروں میں انہی نوسربازوں کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے زید حامد، اوریا مقبول جان، ہارون الرشید اور حسن نثار جیسے مائنڈ سیٹ کی حمایت بھی حاصل ہو جاتی ہے جو اپنے اپنے تئیں ان نوسربازوں کی شخصیات میں سے کبھی کبوتر اور کبھی پھول نکال کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھتے ہیں۔ شنید ہے کہ تبلیغی جماعت کے سرکردہ بزرگوں نے طارق جمیل سے ایک فاصلہ قائم کر لیا ہے، وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ سیاسی مولوی بن چکے ہیں اور عمران خان کی حمایت میں تو تمام حدیں پار کر کے صادق و امین کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کر چکے ہیں۔

بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے، کیا یہ تبلیغی بزرگ پہلے سے اتنے سادہ تھے یا عوامی مزاج اور سیاسی منظر نامے کی حدت کو محسوس کرتے ہوئے موجودہ وقت میں سادہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا یہ اس وقت بے خبر تھے جب بادشاہ کے دربار سے مولانا اپنی خدمات کا صدارتی ایوارڈ حاصل کر رہے تھے؟ کیا یہ اس وقت بے خبر تھے جب ایم ٹی جے برانڈ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے دنیا بھر کی ایلیٹ کلاس شرکت کر رہی تھی اور تقریب کو چار چاند لگانے کے لئے سادگی کا درس دینے والے طارق جمیل کروڑوں نچھاور کر رہے تھے؟

کیا یہ بزرگ اس وقت ذکر اذکار میں مصروف ہوتے ہیں جب مولانا ہر حکمران کے دروازے پر دستک دے کر دعوت کے بہانے قربت کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہوتے ہیں؟ کیا اس وقت بے خبر ہوتے ہیں جب مولانا دوسروں کو نگاہیں نیچی کرنے کے فضائل سناتے ہیں جبکہ خود اداکاراؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی نورانیت کا چھڑکاؤ کر رہے ہوتے ہیں؟ درجنوں ویڈیوز ایسی ہیں جس میں مولانا صاحب بڑی بے تکلفی سے اداکاراؤں سے پھولوں کے گلدستے اور سروں پر دست شفقت رکھ رہے ہوتے ہیں۔

مگر حیرت ہے تبلیغی بزرگوں کو ان سب کا آج پتہ چلا ہے؟ اب اس کیفیت کو ہم نیم رضامندی کہیں یا مصلحت؟ اب مولانا کو کیا کہیں جنہوں نے ڈاکٹر بن کر عوام کا مفت علاج کر کے حقیقی خدمت کا فریضہ سرانجام دینے کی بجائے تبلیغ کے ذریعے وربل سروس یعنی زبانی جمع خرچ اور حسین و جمیل سپنے دکھانے کا راستہ چنا۔ یہ سب ان کی ذات کی حد تک تو ٹھیک ہے وہ جو چاہے کریں یہ ان کا حق ہے مگر دوسروں کو زبردستی حسین و جمیل سپنے دکھا کر ان کے فن کو کچل کر محض اپنے جیسا تبلیغی بنانے میں لگے رہنا یہ بھی تو کوئی مناسب بات نہیں ہے۔

قیمتی فنکار، ڈاکٹر، انجینئر یا کوئی بھی پروفیشنل بڑے مشکل مراحل سے گزر کر اور غریب والدین کی جمع پونجی لٹ جانے کے بعد بنتا ہے جبکہ مبلغ بننے کے لیے تو محض آٹھ جماعتیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ نجانے اس معاشرے کے کتنے فنکاروں اور جنید جمشیدوں کے فن کی موت کا بوجھ مولانا طارق جمیل کے سر ہے؟ دوسری طرف ہمارے نوجوانوں کے بوڑھے ہیرو اور امیرالمومنین عمران خان ہیں، جو اپنے بے توقیری اور نرگسی رویوں کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کا گریس کے ساتھ مقابلہ کرنے کی بجائے ایوان کو ہی بے توقیر کر کے چلے گئے اور اپنے رخصتی کے درجنوں ورژن اب تک مارکیٹ کر چکے ہیں۔

ذاتی انا کی تسکین و خوشنودی کے لیے متھ میکنگ کر کے تاریخ کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا جا رہا ہے جس کو کھرچنے اور جذباتی اسموک سکرین کو صاف کر کے تاریخی منظر نامہ کی حقیقی تصویر کو سامنے لانے کے لیے نہ جانے کتنے اہل نظر و فکر کو اپنی زندگیاں تیاگنا پڑیں گی؟ کیا کوئی اس حد تک خود غرض اور خود پسند شخص بھی ہو سکتا ہے جو اپنے شخصی سحر میں مبتلا یوٹیوبرز پوڈ کاسٹرز اور اپنی عقیدت میں نہال اداکار شان تک کی تذلیل و تضحیک کرنے سے بھی باز نہ آئے؟

خان صاحب اپنی کھوکھلی شخصیت کو نمایاں طور پر پیش کرنے میں لائٹ اور گلیمر کو کتنی فوقیت دیتے ہیں اور آج کل دے رہے ہیں وہ آپ سوشل میڈیا کے ایک کلپ سے اندازہ لگا سکتے ہیں، جس میں میں ایکشن میں آنے سے پہلے خان صاحب اے آر وائی کی لائٹنگ کی تعریف اور پوڈ کاسٹرز بشمول اداکار شان کی پنگی بجا رہے ہیں۔ سرکار فرما رہے ہیں کہ لائٹنگ، گلیمر پروفیشنل قسم کا ہونا چاہیے اور سوالات مختصر و کرسپی ہونے چاہئیں تاکہ صاحب مخاطب کھل کر خود نمائی کر سکے۔

ایوان کا بھگوڑا اب یوٹیوبرز اور پوڈ کاسٹرز کو بھی مجبور کر رہا ہے کہ اس سے اس کے مطلب کے سوال پوچھے جائیں نا کہ گرلنگ قسم کے سوالات۔ کیوں کہ گرلنگ قسم کے سوالات مصنوعی شخصیت کے لیے زہر قاتل کا درجہ رکھتے ہیں اور اپنے خان صاحب تو آل ان آل ہیں۔ تیسری شخصیت عالم آن لائن والی سرکار عامر لیاقت ہیں جو ٹی وی سیٹ پر ہر وہ کردار نبھانے کے ماہر ہیں جس سے انہیں لائم لائن لائٹ ملے۔ رو رو کر دعا کروانے کی شعبدہ بازی سے لے کر دوشیزاؤں کو نکاح کے نام پر اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

طلاق یا خلع کے بعد خود تو دودھ کے دھلے ہو جاتے ہیں اور خواتین کو مجرم یا کال گرل گرداننے لگتے ہیں۔ یہ تین کردار ہمارے معاشرے کے وہ کردار ہیں جو معاشرے کے نباض ہیں اور اپنی اپنی ایکٹنگ اور شعبدہ بازیوں کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ یہ معاشرے کے وہ محروم لوگ ہیں جو اپنی محرومیوں کا بدلہ لوگوں کی صلاحیتوں کو دفن کر کے وصول کرتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ان تینوں کرداروں کی کیس اسٹڈی ہونی چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ یہ کردار سہانے سپنے دکھا کر لوگوں کو روبوٹ کیوں بناتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments