میلا مر گیا، جنجر اداس ہے


میلا مر گیا، جنجر اداس ہے، بہت زیادہ اداس۔ سر ڈالے پڑا ہے۔ نہ بولتا ہے، نہ بلانے پر جواب دیتا ہے اور نہ کچھ کھا پی رہا ہے۔ پتہ نہیں آپ کو میلا، جنجر، ہارنلڈ یاد بھی ہیں کہ نہیں۔ چار مہینے پہلے ان پر ایک کالم لکھا تھا ”ایک بلے کی کہانی“ کے عنوان تلے۔ کہاں یاد ہوں گے بھلا۔ جس ملک میں نہرو کی دھوتیوں سے زیادہ وزیراعظم بدلتے ہوں اور پے در پے حوادث و واقعات کا سلسلہ جاری رہتا ہو، وہاں بلونگڑوں کو کون یاد رکھتا ہے بھلا۔ لب راہ اور بر سینہ سڑک ابن و بنات آدم مارے جاتے ہیں اور چند دن بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہتا، ایسے میں بلونگڑوں کی کیا اوقات اور کیا حیثیت۔

کچھ دنوں سے میلے کا ڈیرہ عقبی لان میں مغربی دیوار کے ساتھ ساتھ بنی کیاری میں تھا۔ اس جگہ جہاں دیوار سے آگے کو تصرف کرتی چھتنار بیل مستقل سایہ کیے رہتی ہے۔ وگرنہ اپنی زندگی کے دو گرم اور ایک سرد موسم میلے نے پچھلے برآمدے میں سوئچ بورڈ کے نیچے والی نکڑ میں گزارے۔ برآمدہ اونچی کرسی پر بنا ہے چنانچہ باغیچے سے دو سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے کا فرش آتا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے کمزوری، نقاہت اور اس کے پچھلے دھڑ کا مفلوج پن اس قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ سیڑھیاں نہ چڑھ پاتا۔

اس کا دودھ کا پیالہ اور پانی کا برتن وہیں کیاری میں اس کے قریب رکھ دیا گیا تھا۔ کل سے تو اس کی نقاہت کا یہ عالم تھا کہ قریب پڑا دودھ بھی نہ پی سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے آج جب لال خان مالی نے بتایا کہ میلا کیاری میں مرا پڑا تھا، میں نے اٹھا کے اسے باہر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ہے تو ہمیں کچھ زیادہ حیرت نہ ہوئی۔ زہرا کی آنکھیں البتہ نم ہوئیں۔ میلا اور جنجر اس کی واک کے پارٹنر تھے۔

گھر کے مشرقی لان میں رات کو زہرا شمالاً جنوباً واک کیا کرتی ہے۔ وہ دونوں اس کے ساتھ ساتھ واک کرتے تھے۔ کبھی بھوکے ہوتے تو راستے میں آ کے بیٹھ جاتے اور جب تک انہیں کچھ کھانے کو مل نہ جاتا، راستہ نہ چھوڑتے۔ یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو میلا اسی ڈھیر پر پڑا ہے جہاں سے وہ اپنے لئے رزق تلاش کیا کرتا تھا۔ کل صبح جب سینٹری ورکر اسے اٹھا کر لے جائیں گے تو ان کے وہم و گماں میں بھی نہ ہو گا کہ وہ ایک چھوٹی سی کہانی کوڑے کے ٹرک میں لئے جاتے ہیں۔ وہ کہانی جس کا ایک کردار جنجر اکیلا رہ گیا ہے۔

جنجر اپنی معصومیت اور بھولی بھالی شکل کی وجہ سے سب کا پیار لیتا تھا، میلے کو کوئی لفٹ نہ ملتی۔ چنانچہ جب جب جنجر کو پکارا جاتا اور وہ میاؤں میاؤں کرتا برآمدے میں آتا تو میلا بھاگ کر اس سے آن چپکتا اور اسے دھکیلتا ہوا پرے کر کے خود کو پکارنے والے کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا مگر اسے گھرکیاں ہی ملتیں۔ ایک دن کہیں باہر سے پٹ کر آیا، کمر پر سے کھال ادھڑی ہوئی تھی۔ ایک موٹے منہ والا ظالم سا بلا پھرتا ہے، وہی ان کی پٹائی کیا کرتا ہے۔

اس کی کھال کے وہ ادھڑے بال مرتے دم تک دوبارہ نہ آ سکے۔ ابھی پندرہ بیس روز قبل میلے نے پھر یا تو کہیں سے مار کھائی یا چوٹ لگوا کے آیا۔ اس کی پچھلی ٹانگیں اس کو بوجھ نہ اٹھا پاتیں۔ چلنے کی کوشش میں لڑکھڑا کر اس کا پچھلا دھڑ زمین پر آ رہتا۔ بس یہی معذوری اس کی جان لے گئی۔ تاہم اس بیماری میں اس نے توجہ لی اور خدمت بھی خوب کروائی۔ تاہم یہ پیار نہ تھا بلکہ جذبہ ترحم کے زیر اثر تھا۔

یاد دہانی کو پس منظر تازہ کر لیجیے۔ جنجر اور ہارنلڈ بھائی تھے۔ ان کی ماں چھوڑ کے چلی گئی تو ایک دن یہ گرے رنگ والا بھی کہیں سے پھرتا پھراتا آ گیا۔ تھا تو یہ بھی ہارنلڈ اور جنجر کا ہم عمر مگر کسی قدر غاصب۔ جنجر اور ہارنلڈ کو جو کھانے کے لیے دیا جاتا، یہ جھپٹ کر قبضہ جما لیتا۔ پہلے خود سیر ہوتا پھر کسی اور کو قریب پھٹکنے دیتا۔ فرینک ایسا کہ آپ چائے کا کپ لے کر لان میں بیٹھے ہیں تو لپک کر آپ کی گود میں گھسنے کی کوشش کرے گا کہ جو بھی کھاتے پیتے ہو مجھے بھی حصہ دو ۔ اس کی انہی عادات کی وجہ سے بچوں نے اسے میلے کا خطاب دیا۔ عادات و حرکات جو میلی تھیں۔ بہر حال رفتہ رفتہ یہ تینوں ہماری روزمرہ کا حصہ بن گئے۔

ہارنلڈ بہت کیوٹ تھا، سفید دودھ ایسی رنگت اور نیلی آنکھیں۔ خوبصورتی میں جنجر دوسرے نمبر پر تھا۔ اس وجہ سے بھی تیسرا ”میلا“ کہلایا۔ ہارنلڈ کو اس کی خوبصورتی لے ڈوبی اور اسے کوئی اٹھا لے گیا۔

اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی

اس شام جنجر بہت اداس تھا۔ بھائی کو کھو دینے کا دکھ اس کے چہرے پہ لکھا تھا۔ بہرحال اب یہ دو رہ گئے۔ اس روز سے جنجر بہت سنجیدہ رہنے لگا۔ اک صوفیانہ سی بے نیازی اس کے انداز و اطوار سے جھلکتی تھی۔ جنجر کو نارمل ہونے میں بہت وقت لگا، پھر دھیرے دھیرے اس کی میلے سے دوستی ہو گئی۔ ہوتا یہ ہے کہ شام کو دودھ کا پیالہ جو بھرا ہے تو جنجر آ کے پینے لگا، اتنے میں میلا آ گیا اور پیالے میں منہ دے دیا۔ جنجر صلح پسندی سے دودھ چھوڑ کر ایک طرف ہو گیا ہے۔ میلے نے پیٹ بھر لیا تو پھر جنجر نے بچا کھچا پی لیا۔ کوئی بوٹی ڈالی ہے تو میلا دور سے بھاگتا آیا ہے اور جھپٹ کر جنجر کے آگے سے بوٹی اٹھا لے گیا۔ مجال ہے جنجر کبھی اس کے پیچھے لپکے۔ دونوں اکٹھے گھومتے۔ حتیٰ کہ موٹے منہ والے بلے سے مار بھی اکٹھے کھاتے۔

اب میلا بھی مر گیا ہے اور جنجر نے پھر سے سر ڈال دیا ہے۔ چپ چاپ برآمدے میں پڑا ہے۔ مجھے لگتا ہے جنجر میں جان نہیں، روح ہے۔ اشفاق احمد صاحب سے جان اور روح کا فرق پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا دو بکرے بندھے ہوں، آپ ان میں سے ایک کو ذبح کر دیں، تھوڑی دیر بعد دوسرا مزے سے گھاس کھا رہا ہو گا۔ یہ جان ہے۔ دو انسانوں میں سے ایک کو دوسرے کے سامنے مار دیں، بچ جانے والا کچھ کھا پی نہ سکے گا۔ یہ روح ہے۔

جنجر بھی کچھ نہیں کھا رہا، نہ بات کا جواب دیتا ہے۔ نہ بولتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments