رنج لیڈر کو بہت ہے مگر


سابق وزیراعظم کی جانب سے مبینہ امریکی سازش کے بیانیہ کی جو بحث جلسوں میں چل رہی ہے اور ہر آن ایک ہی بیان ہے کہ ان کی حکومت کو بیرونی مداخلت کے ذریعے میر جعفر اور میر صادق نے سازش کر کے گرایا۔ انہوں نے پہلے اپنے منحرف اراکین پر کرپشن اور امریکی اہلکاروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا مبینہ الزام لگایا تو ساڑھے تین برس ہر جائز اور ناجائز قانون سازی یا پالیسی میں ساتھ دینے والے سابق اتحادیوں پر بھی سنگین الزامات عائد کیے ۔

ان کا یہیں پر توقف نہیں رہا بلکہ وفاق و پنجاب میں ان کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھانے والے جہانگیر ترین اور علیم خان بھی محفوظ نہیں رہے اور ان پر بھی اختیارات سے متجاوز ہونے کے لیے دباؤ اور راہیں جدا ہونے کی بظاہر اصل وجوہ بتا دی۔ اتحادی جب تک ان کے ساتھ تھے، اچھے تھے، سچے تھے، نفیس تھے، لیکن اب ان میں ہر وہ خامی نظر آ رہی ہے جن کی وجہ سے انہیں رات کی تاریکی میں وزیراعظم ہاؤس سے نکلنا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ ایک بڑا لاؤ لشکر انہیں وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالا رخصت کرتے ہوئے مکمل یگانگت و یکجہتی کا اظہار کرتا، شاید معاونین انہیں یہی مشورہ دینے آئے تھے لیکن وہ ایک زخمی شیر کی طرح گھائل اکیلے سدھار گئے۔

کئی عرصے سے ملک میں پارلیمان کی بالادستی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے، اس بحث کا بنیادی نکتہ اور استدلال یہ ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ عوام کا نمائندہ ادارہ ہے لہٰذا اسے دیگر تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہے۔ یہ دراصل وہ نظریہ ہے جو انگلستان میں بادشاہ اور چرچ کے مابین کشمکش کے زمانے میں عوامی نمائندوں کی اتھارٹی کو تقویت دینے کی خاطر اختیار کیا گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کا ماننا ہے کہ ”آئین پارلیمنٹ سے بالادست ہے۔

“ پارلیمنٹ کی بالادستی کے ضمن میں جو اصحاب یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے لہٰذا وہ بالاتر ہے، وہ اس موقع پر یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک آئین کے تحت وجود میں آنے والی پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ تو یقیناً ہوتی ہے مگر وہ آئین ساز ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنا سکتی ہے جو آئین سے متضاد یا متصادم ہو، اسی طرح آئین نے سپریم کورٹ کو تشریح کا حق دیا ہے، پارلیمنٹ آئین کی تشریح نہیں کر سکتی، جس طرح پارلیمنٹ آئین سے متصادم قوانین نہیں بنا سکتی، اسی طرح سپریم کورٹ بھی آئین سازی نہیں کر سکتی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ ایک دوسرے سے بالاتر نہیں بلکہ آئین کی دی ہوئی حدود اور اختیارات کے اندر رہ کر کام کرتے ہیں۔

پاکستان میں جس قسم کا بھی ہو ایک جمہوری نظام موجود ہے اور ادارے اسی نظام کے تابع کام بھی کر رہے ہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ بعض مقدمات کی وجہ سے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان بادی النظر میں محاذ آرائی پیدا ہوئی، بعض معاملات پر کشیدگی محسوس کی گئی لیکن یہ امر خوش آئند رہا کہ ماضی کے برعکس سب کچھ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا بالکل صائب ہے کہ اگر 4 جولائی 1977 اور 12 اکتوبر 1999 کو عدالتیں بیٹھی ہوتیں تو تاریخ مختلف ہوتی؟

برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے لارڈ سٹائن نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پارلیمانی بالادستی کا خالص اور مطلق العنان تصور جو ڈائسی نے پیش کیا تھا وہ تصور عہد حاضر میں بے محل ہے اور نہ ہی یہ تصور آئین کے مزاج سے موافقت رکھتا ہے لہٰذا یہ تاثر غلط ہے کہ صرف منتخب نمائندے ہی عوام کی منشا کے بلا شرکت غیرے ترجمان ہیں، اس اعتبار سے یہ منتخب نمائندے ریاست کے کسی بھی عضو بشمول عدالت کے سامنے جوابدہ ہیں بلکہ عدلیہ بھی عوام کی منشا کا اظہار کرتی ہے“ ۔

بہرحال یہ بہت پیچیدہ اور گنجلک بحث ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے دی جانے والی دلیلوں میں قدرے کچھ وزن بھی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں تو کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا، امید تو یہی کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں آئین اور اس پر عمل کرنے کا کلچر بتدریج جڑ پکڑے تو ہمارے سارے مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوسکتے ہیں۔

اب سابق وزیر اعظم و رفقاء نے مبینہ امریکی سازش کا جو بیانیہ بنایا ہے، اس پر آتے ہیں کہ ہمارا آئین کیا کہتا ہے، ہماری پارلیمنٹ کیا سوچ اور فیصلہ کر سکتی ہے۔ عمران خان کی پالیسی بیان میں ابہام ہے، وہ آزادانہ خارجہ پالیسی کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ وہ مستقبل میں یا موجودہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ امریکی صدر جو بائیڈن نے تو ان کے دور اقتدار میں ایک بار بھی انہیں فون تک کرنے کی زحمت نہیں کی تو امریکہ کو کیا فرق پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی چھوڑیں، صرف یہ بتائیں کہ کیا وہ دو تہائی اکثریت یا دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ سے ”معافی“ نہ مانگنے تک تمام سفارتی تعلقات ختم کر دیں گے، انہیں یہ بھی عوام کو بتانا ہو گا کہ کیا وہ پاکستان سے تمام امریکی اہلکاروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر سفارت و قونصل خانے بند کرا دیں گے۔ انہیں عوام سے وعدہ کرنا ہو گا کہ جب تک امریکہ سازش کا اعتراف جرم نہیں کرتا، اس وقت تک اپنے تمام سفارتی مشن کو واپس بلا لیا جائے گا۔ کیا عمران خان امریکہ کو ناپسندیدہ ملک قرار دے کر ان سے تعلقات اس وقت تک منقطع کر لیں گے جب تک امریکہ اپنی ’حرکتوں‘ سے باز نہیں آ جاتا۔

صرف سیاسی بیانیہ بنانے سے تو کچھ کام نہیں ہو گا، عوام کو بتانا ہو گا کہ ان کا مستقبل میں لائحہ عمل کیا ہو گا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ اگر غلط ہے تو شاید ان پر ”بیرونی دباؤ“ ہو گا، کیونکہ آزاد خارجہ پالیسی نہیں، حکومتی کمیشن ناقابل قبول کیونکہ جو حکومت آئی ہے وہ تو ”سازش“ کے تحت آئی ہے، پھر رات کو کھلنے والی عدالتیں، اگر کھلی سماعت میں امریکی سازش کی سماعت کریں تو آپ کو منظور ہو گا، اب فیصلہ بھی بتا دیں کہ کرنا کیا ہے؟ امریکہ سے علیک سلیک تو ہو نہیں سکتی کیونکہ اس نے تو ’خطرناک حرکت‘ کی ہے اور اسی وجہ سے حکومت گری، اب عوام کو بتائیں کہ امریکہ، ہمارا بھارت سے بھی بڑا دشمن ہے، انہیں امریکہ مخالف بلاک میں جاکر ’کھڑا‘ ہونا ہو گا۔ کیا آپ اور آپ کے سپورٹرز چاہتے ہیں کہ امریکہ سے ”جنگ“ کی جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments