کپتان ایک اور ریکارڈمبارک ہو


تکبر کی ابتدا ”انا“ اور ”میں“ سے ہوتی ہے اور اس کا اظہار بڑے بول اور انجام بے عزتی، سبکی، شرمندگی کی صورت میں ہوتا ہے (اگر محسوس کیا جائے)۔ عمران خان نے اپنی سیاسی کیرئیر کی ابتداء سوشل ورک یعنی شوکت خانم میموریل اسپتال سے کی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی دنیا بھر سے اسپتال بنانے کے لئے چندہ مانگ کر بڑی بڑی شخصیات کو مدعو کر کے اپنی سیاست کا بھی آغاز کر دیا تھا۔ عمران خان اگر الزامات کے بجائے خدمات کی سیاست پر توجہ رکھتے تو بلا شرکت غیرے آج مشہور ترین اور ہر دلعزیز حکمران ہوتے لیکن حکمرانی یا وزیر اعظم بننے کی جلدی میں انہوں نے الزامات کی جس سیاست، لوٹا کریسی، بدزبانی، بدتہذیبی کا آغاز کیا تھا وہ آج ان ہی کے سامنے پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔ آج عمران خان واپس اسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے اسی عمل پر مجبور ہو گئے جس سے محض چند مہینے پہلے تک وہ اپنے حریفوں کو روکتے تھے۔ بدقسمتی سے دو خاندانوں کی پاکستان پر حکمرانی کے خاتمے کا عوامی خواب خود عمران خان نے اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے توڑ کر پاش پاش کر دیا ہے۔

یہ فخر بھی عمران خان کو ہی حاصل ہے کہ حکومت میں رہ کر بھی انہوں نے اپوزیشن ہی کی ہے۔ بڑے اب یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رہنمائی کی اہلیت نہیں رکھتے۔ عدالت سے ”صادق اور امین ’کا ٹیگ لے کر پھولے نہ سمانے والے عمران خان خود کو صادق اور امین ثابت نہیں کر سکے۔ ان کے حلقہ احباب سے اگر یہ بات کہی جائے تو ان کا جواب یہی ہو گا کہ کوئی کرپشن کی ہے تو ثابت کر دکھائیں (کچھ عرصہ کے بعد سب سامنے آئے گا)۔ اب جہاں سمجھداری کا معیار یہ ہو تو وہاں سوائے سر پکڑنے اور اللہ سے دعا کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا۔ صداقت لفظوں کی ہوتی ہے جس پر عمل تصدیق مہر ثبت کرتا ہے اور امانت میں تمام فرائض اور ذمہ داریاں اور اعمال آتے ہیں۔ مصالحت کے بادشاہ آصف زرداری کے بعد عمران خان ہیں جنہیں یو ٹرن کا کنگ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ کا نعرہ لگانے والے کی اپنی آدھی کابینہ امپورٹڈ تھی اور اسی ملک سے تھی جو بقول ان کے ان کی حکومت گرانا چاہتا تھا۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر امریکا سے امپورٹڈ ہیں جبکہ آج امریکا کے نام پر پیچ و تاب کھانے والے عمران خان اسٹیٹ بینک بھی امریکا کو گروی رکھوا چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان نومبر 2022 میں بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ورلڈ بینک ہو جائیں گے جس کی منظوری نام نہاد لیڈر عمران خان نے خود اپنے ہاتھوں سے دی ہے۔ شہباز گل (یو ایس)، ندیم بابر (یو ایس)، معید یوسف (یو ایس)، شہزاد قاسم (یو ایس)، شیخ (یو ایس)، زلفی بخاری (یو کے، ندیم افضل گوندل ( کینیڈا)، تانیہ ادریس (کینیڈا اینڈ سنگا پور) سے امپورٹڈ ہیں جبکہ محمد اعظم خان امریکا ایکسپورٹ کیے جائیں گے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہی امریکا جس کے مردہ باد ہونے کا نعرہ عوام سے لگوایا جا رہا ہے اسی امریکا کا شہری بل گیٹس نہ صرف فروری 2022 میں پاکستان آیا بلکہ وزیر اعظم سے ملاقات کی اور جاتے جاتے اسے ”ہلال پاکستان“ کے تمغے سے بھی نوازا گیا۔ کیا اس بارے میں سوال نہیں پوچھنا چاہیے کہ ملک کا وزیر اعظم ایک عام غیر ملکی شہری کو کس حیثیت سے ملاقات کرنے کا شرف بخش رہا ہے اور کس کارنامے کی بنیاد پر یہ میڈل غیر ملکیوں میں بانٹ رہا ہے؟ بد قسمتی سے عمران خان جھوٹ، منافقت، غرور کے ہزاروں میڈل یافتہ ہو چکے ہیں جو قابل فخر نہیں بلکہ باعث ہزیمت ہیں۔

سوال یہ بھی پو چھا جانا چاہیے کہ دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے نام پر بننے والا بینک اکاؤنٹ جو کہ بعد میں ریٹائرڈ جسٹس ثاقب نثار اور عمران خان کے نام منتقل ہوا اس میں جمع شدہ رقم کہاں ہے اور ڈیم کا معاملہ کہاں تک پہنچا؟ عمران خان کے خلاف عدالتی فیصلہ آنے پر چراغ پا ہو نے والوں نے اس وقت اپنے دماغ کی بتی روشن کیوں نہیں کی تھی جب ایک عدالتی حکم پر بسے بسائے تمام غیر قانونی گھر توڑے جا رہے تھے ایسے میں اسلام آباد میں موجود غیر قانونی گرینڈ حیات اپارٹمنٹس کو کیسے اور کیوں قانونی بنا دیا گیا؟ یہ مہربانی کراچی کے نسلہ ٹاور اور دوسرے لیز شدہ گھروں پر کیوں نہیں کی گئی اور حق کے نام نہاد خود ساختہ لیڈر عمران خان نے اس وقت یہ جملہ کیوں نہیں دہرایا کہ ”اس ملک میں غریب کے لئے ایک قانون اور امیر کے لئے دوسرا ہے“

آج عمران خان کے معاملے میں حق اور باطل کی خوب سمجھ رکھنے والوں، دین اسلام کی بات کر کے لوگوں کے جذبات بھڑکانے والوں کے پاس اس بات کی کیا ٹھوس دلیل ہے کہ سابق وزیر اعظم نے کوالمپور سمٹ میں جانے سے انکار کیوں کیا تھا؟ کیا اس کی وجہ معاشی عدم استحکام کی دھمکی سے خوفزدہ ہو جانا نہیں تھا۔ یہ دھمکی کس نے کس کے کہنے پر دی تھی؟ کیا کوئی ہے جو نہ جانتا ہو اور کوئی ہے جس نے کہا ہو کہ عمران خان نے اس موقع پر امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں جبکہ ترکی، ایران اور ملائشیا وہ ممالک تھے جنہوں نے عالمی فورم پر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کی حمایت کی تھی عمران خان نے عین وقت پر انہیں لال جھنڈی دکھائی تھی۔

عمران خان خود کہتے رہے کہ ہمیں ہٹانے کے لئے امریکی سازش کی گئی ہے، اپوزیشن کو غدار بھی کہہ دیا، خط بھی لہرا دیا، سب کے سامنے سازشی ملک کا نام لے کر اور بے خیالی میں منہ سے نام نکل جانے کا خوب ڈرامہ بھی کر لیا، عوام کو امریکا کے سامنے ڈٹ جانے کے نعرہ دے کر سڑکوں پر بھی نکال لیا اور مزید بدمزگی پھیلانے کا بھی اعلان کر دیا لیکن خود امریکا مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ قوم کو منع کر دیا کہ کہ بینرز پر ایسے نعرے درج نہ کریں، حال ہی میں امریکی وفد سے بنی گالہ میں ملاقات بھی کر لی اور امریکا نے وفد کو ملاقات کرنے بھیج بھی دیا۔ کیا کوئی اس سوال کا جواب دے گا کہ سازش کرنے والے ملک سے عمران خان کیسے مل لیے اور جس ملک پر پوری دنیا کے سامنے حکومت گرانے کا الزام لگایا گیا وہ کیسے ان سے مل سکتا ہے؟ کیا کہیں یہ دونوں کی ملی بھگت ہی تو نہیں؟ عمران خان نے وزیر اعظم کے منصب پر براجمان ہو کر انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند کا شوق تو پورا کر لیا لیکن مختلف پارٹیوں سے ادھار لیے ہوئے ایم این ایز اور ایم پی ایز لے کر حکومت بنانے، جسٹس فائز عیسیٰ پر ریفرنس دائر کرنے، امریکا کو ایسلوٹلی ناٹ کہنے کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بعد یہ پیغام بھی دیدیا ہے کہ حکومت شوق سے نہیں عقل و سمجھ سے چلائی جاتی ہے لہذا اگلی بار الیکشن ہو یا سلیکشن، دیکھ بھال کر ہونا چاہیے۔

قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی جانب سے لاوارث چھوڑ دیے جانے والے علی محمد نے عمران خان کے بیانیے ”آخری بال تک لڑوں گا“ کی وکٹیں پوری دنیا کے سامنے اس وقت پوری قوت سے توڑ کر اڑا دی تھیں جب انہوں نے اپوزیشن ممبران سے بھری قومی اسمبلی میں تقریر کر کے نہ صرف اپنے جذبات کا اظہار کیا بلکہ اپنے لیڈر کو بھی یہ واشگاف الفاظ میں پیغام دے دیا کہ ”آخری بال تک لڑنا یا مقابلہ کرنا کیا ہوتا ہے“ جبکہ عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی پوری کابینہ سمیت بھی آنے کی ہمت نہ کر سکے تھے۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خود کشی کی بھڑکیں لگانے کی بات ہو، معاملہ ڈسکا کے الیکشن میں دھاندلی کا ہو، یا حکومت میں آنے کے بعد تاخیر سے دورہ چین ہو، ابتدائی سو دنوں میں سی پیک کا رول بیک ہو، چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس عوام کے لئے کھولے جانے کے اعلان سے انحراف ہو، تمام شواہد کی روشنی میں سزائے موت کی مجرمہ آسیہ کی سزا ختم ہونے اور تمام خاندان سمیت امریکا میں سیٹل کرانے کا معاملہ ہو، عثمان بزدار کو صوبہ پنجاب کی وزات اعلیٰ سے ہٹانے کی بات ہو، دنیا بھر کے بارے میں جاننے کا گمان کرنے والے کے اپنے ہی گھر میں فرح خان کی کارستانیوں سے بے خبری کا معاملہ ہو، میڈیا کی زبان بندی یا نامور صحافیوں کے روزگار چھیننے کا جرم ہو، حکومت میں آنے سے پہلے جہانگیر ترین کا جہاز بھر کر لوگوں کو پی ٹی آئی میں شمولیت کا معاملہ ہو، بات بات پر ایمپائر کے نیوٹرل ہونے یا ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا نعرہ ہو، عمرا ن خان نے دھوکہ بازی اور نالائقی کا کوئی ایک ایسا ہار، ٹیکہ اور جھومر نہیں جو خود پر سجانے سے چھوڑا ہو اور وہ آج بھر پور طریقے سے یو ٹرن، منافقت کے سولہ سنگھار سے خود کو مزین کر چکے ہیں۔ عمران خان وہ واحد سربراہ مملکت رہے ہیں جنہوں نے جو کہا وہ نہیں کیا اور جس کام سے انکار کیا پھر وہ کام جھک کر کیا گویا اپنے الفاظ سے پھر جا نے کا عمل جس تیزی سے مختصر مدت میں انہوں نے نبھایا ہے وہ خود ایک ریکارڈ ہے تو کپتان ایک اور ریکارڈ مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments