ڈاکٹر کی نظر میں اچھا مریض کون ہے؟


گزشتہ روز میرا پہلا مریض ایک تین سالہ بچہ تھا۔ میں نے اس کی ماں کو سٹول پر بیٹھنے کو کہا کہ بچے کو گود میں لے لے اور اس کے والد کو کرسی پیش کی۔ حسب معمول میں نے دراز کھولی اور ایک لالی پاپ بچے کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اس کے دونوں ماں باپ نے ایک آواز سے کہا ”تھینک یو بولو!“ میں ہنس پڑا اور مزاحاً دونوں سے کہا کہ اگر آپ اس بچے کو گھر میں کسی شاباشی کے طور پر بھی تھینک یو بولتے رہے ہوں تو آج اس یاد دہانی کی ضرورت نہ پڑتی۔ سال میں دو مرتبہ ڈاکٹر کے کلینک میں تھینک یو سکھانے سے بچے کے اخلاق میں بے ساختگی نہیں آ سکتی۔ اور نہ ڈاکٹر کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ ہر بچے کو یہ عادات سکھا سکیں۔

اگر میں آپ سے پوچھوں کہ ایک اچھا ڈاکٹر کون ہو سکتا ہے تو آپ کے علاوہ میرے فیس بک کے سب دوست، نانبائی سے لے کر سرکاری ملازمین تک اچھے ڈاکٹر کے خواص فر فر شمار کر دیں گے۔ لیکن اگر میں آپ سے پوچھوں کہ اچھا مریض کون ہو سکتا ہے تو بڑی مشکل سے دو چار عادات گنوا کر بتا دیں گے کہ بھلا مریض تو درد کے مارے تڑپ رہا ہے، وہ کیا کر سکتا ہے۔ آئیے میں آپ کو بتاؤں کہ ڈاکٹر کس مریض کو پسند کرتا ہے یا کیسے مریض کی خواہش کر سکتا ہے۔

سب سے پہلے تو یاد رکھئے کہ ایک بالغ و عاقل مریض کو لازماً اپنے مسائل کا اپنے قرابت دار سے زیادہ پتہ ہوتا ہے۔ ہر ساس یہ سمجھتی ہے کہ بہو کے بارے صرف اس کی معلومات سے استفادہ کیا جائے۔ اس لئے خدا کا واسطہ سمجھ لیں کہ مریض اگر بچہ نہیں اور ہوش میں ہے، تو اسے خود بولنے دیں۔ میں مریض کو خود سے بولنے دیتا ہوں۔ تحقیق کے مطابق جو مریض اپنے بارے خود ہی رضاکارانہ طور پر بیان کرتا ہے وہ اوسطاً اٹھارہ سیکنڈ سے زیادہ نہیں لیتا۔

بہتر تو یہ ہوتا ہے کہ اپنے ساری تکالیف اور جاری ادویات کاغذ پر ساتھ لکھ کر آئیں۔ ذہن میں جو سوالات اٹھ رہے ہیں، وہ اس فہرست میں شامل کر لیں۔ آج کے گوگل دور میں تعلیم یافتہ مریض پہلے ہی اپنی ریسرچ کر چکا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ انٹرنیٹ غلط بیانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ قابل اعتماد ویب سائٹ یا تو سرکاری (۔ gov) ہوتے ہیں اور یا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ذیلی ادارے ہوتے ہیں۔ اس لئے صرف گوگل سے آپ خود اپنا علاج نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر کو مختصراً دیانت داری سے اپنی تکلیف کے بارے بتائیے۔ ہمارے لئے سب سے زیادہ اذیت ناک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب مریض اپنے ارد گرد ہمسائیوں، خاندان کے بڑوں یا ہومیو پیتھک/حکیم کی رائے ہمیں بتانے پر مصر ہوتے ہیں۔

”بی بی! آپ کا اپینڈکس کا آپریشن کب ہوا تھا؟“ ہم پوچھتے ہیں۔ ”اوہ ڈاکٹر صاحب اس کو توبڑا عرصہ ہو چکا ہے“ ۔ میں جل کر پوچھتا ہوں ”سو سال ہوئے ہوں گے؟“ اپنے ہسپتال اور صحت کا ریکارڈ اپنے ساتھ سنبھال کے رکھیں۔ میری سیکریٹری ہر مریض سے تمام میڈیکل ریکارڈ لے کر تاریخ وار سٹیپل کر کے ایک فائل میں رکھ دیتی ہے تاکہ مجھے مریض کے لمحہ وار مرض یا علاج کو پڑھنے میں آسانی رہے۔ پھر بھی کچھ مریض درمیان میں اندر بنیان کی جیب یا پلاسٹک کے تھیلے سے ایک مڑا تڑا کاغذ نہایت رازداری سے سامنے کر دیتے ہیں۔

گویا میں سیکریٹری سے چھپانے پر مریض کو شاباش دے دوں۔ بہرحال اپنی جاری ادویات کی فہرست ایک صفحے پر اگر لکھ کے لائیں گے تو یہ ڈاکٹر کو کسی دوا کو غلطی سے دوبارہ آپ کے نسخے میں شامل نہیں کرنے دے گا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی تکالیف کسی واقعے سے نہ جوڑیں۔ پیدائشی نقائص کو کئی مریض اس طرح کسی واقعے سے منسوب کر سکتے ہیں۔ یا اچھے بھلے کینسر کی وجہ بیان کرنا شروع کر دیں۔ ”ڈاکٹر صاحب جب میرا بیٹا دو سال کا تھا کہ اس نے میری چھاتی میں لات ماری تھی۔ تب سے یہ گلٹی بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ چھاتی کے کینسر کی کوئی ایسی وجہ نہیں پائی جاتی جس سے بچا جا سکے۔

میری عادت ہے کہ مریض کے ریکارڈ میں اس کی تاریخ پیدائش ضرور لکھتا ہوں لیکن حیرت انگیز طور پر بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہوتی۔ زنانہ مریض ناقابل یقین طور پر کم عمر بتلاتی ہیں۔ بھلا آپ کی عمر کیسے پینتیس سال ہو سکتی ہے جبکہ آپ کے ساتھ آئی ہوئی شادی شدہ بیٹی تیس سال کی ہے۔

مریض کو اپنے تمام امراض اور جاری ادویات ضرور بتانی چاہئیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے بخار کے ساتھ ساتھ آپ کے چڈے کی گلٹیاں خون کے کینسر کی نشانی ہو۔ اور ہاں بچپن میں ٹی بی کے علاج پر شرمندگی کی کوئی وجہ نہیں۔

ڈاکٹر کا کمرہ عموماً چھوٹا ہوتا ہے۔ اس لئے اپنے ساتھ ایک قرابت دار سے زائد پر اصرار نہ کریں۔ وہاں پہلے ہی سے ڈاکٹر کا جونئیر، ڈریسر وغیرہ کے علاوہ زیر تربیت سپیشلسٹ بھی ہوتے ہیں، جن کے لئے میں اپنے مریضوں کا بہت مشکور ہوں کہ ایک ایک گلٹی کو کئی بار تربیت کے لئے مس کیا جاتا ہے اور وہ اعتراض نہیں کرتے۔ میرے اکثر مریض میرا یہ کہنے پر کہ ”میں تو ساری عمر زندہ نہیں رہوں گا۔ کل کلاں کو یہی آج کے زیر تربیت ڈاکٹر ہی میسر ہوں گے“ آسانی سے بلیک میل ہو جاتے ہیں۔

معائنے کے دوران کئی جگہوں پر درد کا احساس ہوتا ہے۔ اس سے ڈاکٹر کو ضرور مطلع کیجئے۔ اس سے نہ صرف ڈاکٹر صاحب اور بھی محتاط ہو جاتے ہیں۔ بلکہ آپ کے مرض کی تشخیص میں بھی مدد کرتا ہے۔ گزشتہ روز میں نے اپنی پوری پروفیشنل لائف کا دوسرا مریض دیکھا جو پیدائشی طور پر درد نا آشنا تھا۔ یہ ایک چھ سالہ بچہ تھا جس کے جسم پر کئی زخم تھے اور ان کی لاپرواہی سے اتنے پرانے ہو گئے تھے (پیدائشی طور پر درد نا آشنائی ایک پیدائشی نقص ہے اور یہ دونوں بھائی پوری دنیا کے ان بائیس نایاب مریضوں میں شمار ہوتے ہیں ) ۔

مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں مریض کو مکمل معائنے کے لئے ہر قسم کا لباس اتارنا پڑتا ہے۔ خیر وہاں تو مریضوں کو ڈسپوزیبل گاؤن کپڑوں کی جگہ پہننا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں او پی ڈی میں سارا لباس اتارا نہیں جاسکتا۔ تاہم مریض کو گھر سے ایسے کپڑے پہن کر جانا چاہیے جس میں متاثرہ عضو کو دیکھنے میں دشواری پیش نہ آئے۔ آپ پوری شرٹ نہیں اتارنا چاہتے لیکن متاثرہ جگہ کندھا ہے۔ تو گھر سے کھلے گلے کا شرٹ پہن کر جائیں جس کے بٹن کھولے بھی جاسکیں۔ دکھانا گھٹنا ہو اور شلوار ہو تنگ پائنچے کی، ڈاکٹر سر نہ کھجائے تو کیا کرے۔

ڈاکٹر کے پاس اپنے نمبر کا انتظار کیجئے۔ یاد رکھیں دنیا میں کہیں بھی مریض کو بالکل ایک مقررہ وقت پر نہیں دیکھا جاسکتا کہ اس سے پہلے ہو سکتا ہے کوئی ایمرجنسی آئی ہو۔ یا آپ سے پہلا مریض معائنے میں زیادہ وقت لے رہا ہو۔ ڈاکٹر کی چھٹی ہونے پر اپنے معائنے کا اصرار نہ کریں۔ ایک تھکا ڈاکٹر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اور ہاں کلینک اور ہسپتال سے باہر ڈاکٹر ایک عام انسان بھی ہوتا ہے۔ اس کے وقت اور موقع محل کی عزت کریں۔ یہ نہ ہو کہ کسی ولیمے میں ڈاکٹر کے ہاتھ میں نوالہ ہو اور آپ کو اپنے بواسیر یاد آ جائیں جس پر سیر حاصل گفتگو کی توقع کریں۔

خواتین ہر جگہ عزت کے لائق ہوتی ہیں۔ ہمارا پیشہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اگر مرد ڈاکٹر کسی خاتون مریضہ کا معائنہ کرنا ضروری ہو تو کم از کم ایک اور خاتون موقع پر موجود ہو۔ میری کئی مریضائیں نرس سے بھی اپنی بیماری چھپانے پر مصر ہوتی ہیں۔ میں ایسی مریضوں کو دیکھنے سے انکار کرتا ہوں۔

ہو سکتا ہے ڈاکٹر صاحب نے معائنے کے بعد آپ کو سیکنڈ اوپینین کے لئے کسی دوسرے سپیشلسٹ کے پاس بھیجا ہو۔ ایسے میں (میں خود مریض کو فیس واپس کر دیتا ہوں) فیس کی واپسی کا تقاضا نہ کریں۔ کیونکہ یہ ڈاکٹر کے وقت کی قیمت ہے جو وہ بہرحال آپ کے معائنے کے دوران خرچ کرچکا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس معزز لباس میں جائیے۔ یہ نہ ہو اپنی گاڑی دھونے کے بعد گیلے لباس اور باتھ روم کے چپل پہن کر کلینک کے فرش پر اپنی حاضری ثبت کر کے جائیں۔

خصوصاً ماؤں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو کسی کے حوالے کر آئیں۔ ورنہ ڈاکٹر آپ کا معائنہ کرنے کی بجائے پورا وقت آپ کے بچے کی نگرانی میں گزار دے گا کہ کہیں کسی قیمتی آلے کو نقصان نہ پہنچائے۔ میں نے تو آپ کے بچے کو خوش کرنے کے لئے لالی پاپ دے دی ہے۔ آپ کم ازکم اس کے ریپر سے میرے کلینک کو گندا نہ کرنے دیں۔ ویسے بھی صحت مند بچوں کو ہسپتال لے کر جانا خطرناک کام ہی ہے۔

ہم بھی آپ کے معاشرے کا حصہ ہیں۔ براہ کرم دفتر سے غیر حاضری کے لئے مجھے جھوٹی شہادت پر مجبور نہ کریں۔ بے شک آپ عمرے کے لئے جا رہے ہوں یا تبلیغ پر لیکن میں آپ کو میڈیکل سرٹیفیکیٹ نہیں دے سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments