زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے


انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ پہننے والا جانتا ہے کہ جوتا کہاں کاٹتا ہے۔ جوتا نہ ہو گیا کتا ہو گیا۔ اسی انگریزی کا ایک اور محاورہ بھی ہے کہ بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے اس پہ استاد پطرس بخاری نے خوب کہا تھا کہ ’یہ بجا سہی لیکن کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کر دے اور کاٹنا شروع کر دے‘ ۔ ایسا ہی حال کئی دن ہم پہ بیتا۔

پہلے پہل ہم دوسروں کی بنائی ہوئی تصاویر اور ویڈیوز سے محظوظ ہوتے تھے لیکن جب یہ افتاد خود پہ پڑی تو پتا چلا کہ کتنے بیس کا سو ہوتا ہے۔ اکثر سوشل میڈیا پہ دیکھا کرتے تھے کہ موٹر سائیکل بغیر اپنے سوار کے ہی بھاگی جا رہی ہے تو نیچے کسی منچلے نے اسے بھٹو کی موٹر سائیکل سے تشبیہ دینا ضروری خیال کیا ہوتا تھا تو ہونٹوں پہ ہنسی پھیل جاتی تھی۔ یا جیسے کوئی زیاں کار شرارتاً ہوا سے کھلنے والے دروازے کو بھٹو جانی سے منسوب کر دیتا تو ہنسی عود آتی۔

ہمارے والے میں معاملے میں چہرے کے تاثرات تو ہنسی جیسے ہی لگتے تھے لیکن باچھیں اس بے ڈھنگے طریقے سے پھیلتیں اور آنکھیں میں ڈر اور تجسس کی ملی جلی کیفیات ہوتیں کہ اسے کسی طور ہنسی کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔

معاملہ کچھ یوں بنا کہ صبح دفتر تو ہم ٹھیک ٹھاک پہنچ جاتے تھے لیکن واپسی پہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی احساس ہوتا کہ دوسری طرف کے پچھلے دروازے کو بھی کوئی کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جیسے ہی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا ’ساتھ آواز آتی کہ کوئی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ گیا ہے۔ گھاگ ڈرائیور کی مانند نظریں بیک مرر سے پچھلی سیٹ پہ بیٹھے ان دیکھے افسر کو ٹٹولتی کہ چلنے کا امر ہو تو سفر شروع کریں۔

گاڑی تھوڑا سا فاصلہ طے کرتی تو یوں محسوس ہوتا کہ پیچھے بیٹھا شخص کچھ تلاش کر رہا ہے اور اس چھان پھٹک میں باقاعدہ بوتلوں کی چٹخ پٹخ کی آواز آتی۔ ایک دفعہ تو مارے خوف کے اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جائے۔ بیچ سڑک میں گاڑی روک کے دوڑ بھی نہیں لگائی جا سکتی تھی ’سو چلتے رہے کہ منزل تک پہنچ ہی جائیں۔ گاڑی سے اترنے پہ تازہ ہوا لگی تو کچھ سکون ہوا اور اس ساری حرکت کو محض اپنا وہم قرار دیتے ہوئے دماغ سے جھٹک دیا۔

اگلے دن دفتر جانے کی باری آئی تو گاڑی کھولنے سے پہلے اس کے گرد چکر لگایا کہ اگر کوئی ایسی خلائی مخلوق ہو تو پتا چل جائے لیکن وہ خلائی مخلوق ہی کیا جو عام آنکھ سے دکھ جائے۔ بہادر بن کے گاڑی سٹارٹ کی اور مقررہ راستے اور وقت سے دفتر پہنچ گئے۔ یوں لگا کہ عفریت ہماری خود اعتمادی سے ڈر گیا تھا ’پورے راستے کوئی ایسی چھلاوی حرکت یا چھلاوہ گوئی نہیں ہوئی۔

دفتر کے مصروف معاملات میں یہ بات دماغ سے یک لخت محو ہو گئی اور اسی روانی میں شام کو جا کر گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہی چھلاوہ صاحب حاضر۔ کپکپی تو طاری نہیں ہوئی لیکن سوچا کہ آج اس راز کو پانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماجرا کیا ہے؟ گاڑی لمبے راستے سے گھما لی کہ شاید ایسے ہی کو بات سامنے آئے لیکن سوائے تلاش جیسی چھان پھٹک اور بوتلوں کی تڑاخ کے کچھ برآمد نہ ہوا۔

اس کو وہم قرار دینا اب مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ دل میں کہیں نہ کہیں بھٹو جانی بھی چل رہا تھا۔ لیکن اس چمتکاری ملاقات کے بارے بھلا کسی کو کیا بتایا جا سکتا تھا۔ موسم کے تیور دیکھتے ہوئے ایک منصوبہ بنایا کہ گاڑی کو سمندر کنارے لے جایا جائے اور وہاں جا کر صاحب سے پوچھ ہی لیں کہ ہم کسی بھی دور میں جیالے نہیں رہے اور آج کل تو ویسے بھی جیالے ڈیمانڈ میں نہیں ہیں۔

سمندر کی ہواؤں اور فضا میں مہکتی مختلف طرح کی خوشبووں نے ماحول گرما رکھا تھا۔ کچھ دیر انتظار کیا کہ کچھ چھلاوہ گوئی ہو تو بات شروع کریں لیکن بدستور خاموشی کے دبیز پردے تھے۔ خیر ڈھلوانی سی ایک جگہ ملی تو وہاں گاڑی کھڑی کر کے سمندر کا نظارہ لینے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد بیٹھنے کا انتظام کرنے کے لئے گاڑی کا ٹرنک کھولا تو دو پانی والی پلاسٹک کی پچکی ہوئی بوتلیں لڑھکتی ہوئیں باہر گر گئیں جن میں ابھی بھی معمولی سا پانی بھی باقی تھا۔

۔ اووووہ ’تو وہاں یہ عقدہ کھلا کہ چٹخ پٹخ کہاں سے ہوتی تھی اور بالخصوص یہ دفتر سے واپسی پہ ہی کیوں ہوتی تھی۔ گرمی کے باعث اندر دباؤ بڑھ جاتا تھا اور اے سی چلنے سے درجہ حرارت کے فرق کے باعث ایسی‘ چھلاوہ گوئی ’دیکھنے کو ملتی تھی۔ اچھا ہوا معاملہ حل ہو گیا ورنہ بھٹو جانی اللہ جانے کتنے دن اور ستاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments