غیر تربیت یافتہ سیاسی کارکنان


کوئی بھی معاشرہ بغیر کسی قانون کے اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکتا، ضروری ہے کہ وہاں قانون ہو چاہے وہ جمہوریت کی طرز کا ہو یا ڈکٹیٹرشپ کی طرز کا، لیکن ضروری ہے کہ لوگ اس قانون پر عمل کریں اور لوگ اس وقت قانون پر عمل کریں گے جب ان کی تربیت کی جائے گی، اور معاشرہ اپنی خوبصورتی کو اس وقت حاصل کرے گا جب لوگ قانون کی پاسداری کریں گے، جب لوگ مہذب ہوں گے اور اخلاقیات کا خیال رکھا جائے گا، لوگ مؤدب ہوں گے، اور ان کے اندر ایثار و قربانی ہو گی، پاکستان جیسا عظیم ترین ملک اس لئے وجود میں لایا گیا تھا تاکہ اسلام کے بنیادی اصولوں و قوانین کے تحت ایک بہترین معاشرے کی تکمیل جا سکے، اسلام کا نظام یا قانون سب سے بہترین ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا، لیکن کیا ہم  نے اس نظام یا قانون پہ عمل کیا؟

کیا ہم نے معاشرے کی خوبصورتی کو حاصل کرنے کی کوشش کی؟ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی مختلف سیاسی پارٹیوں کے وجود نے قدم جمائے اور اس سفر میں ڈکٹیٹر شپ بھی آئی، لیکن معاشرے کی خوبصورتی کا سفر ختم ہوتا گیا، سیاسی پارٹیوں کا اختلاف سیاست تک رہنا چاہیے تھا اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب یہ اختلافات سیاست تک ہی تھے لیکن جوں جوں یہ اختلافات اور اقتدار کی ہوس بڑھتی گئی وہ اختلافات سیاست دانوں کی ذاتیات تک پہنچ گئے، ان اختلافات اور اقتدار کی ہوس نے پاکستان کو مالی طور پر بہت نقصان پہنچایا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جو کہ شاید اپنے وجود کے وقت کچھ وقت مہذب یا کلچر کی ڈگر پہ تھا، ناپید ہوتا گیا، سیاست دانوں نے اپنی سیاست اور اقتدار کی ہوس کے لئے اختلافات کے باوجود اپنی پارٹیوں میں تو میل جول رکھا، لیکن پاکستانی قوم کو تقسیم در تقسیم کیا، سیاست دانوں نے سیاست میں گالم گلوچ، الزامات، تہمت، کردارکشی، غداری جیسے نظریات اور سوچ پیدا کی، اور یہی سوچ نیچے منتقل ہوئی، عوام الناس نے ایک دوسرے کو گالی دینا شروع کیا، الزامات لگائے، ایک دوسرے کو مختلف غیر مہذب الفاظ سے تعبیر کیا، سیاست دانوں نے اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارا اور یہی آج ان کے کارکنان کا کام ہے، پاکستان کی سیاست میں ایسا گند پھیل گیا ہے کہ جس کی لپیٹ میں ہر خاص و عام مبتلا ہے، سوشل میڈیا کے اس زمانے نے اور غلاظت پھیلا دی اور یہ قوم آپس میں ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور بددعائیں کرتے ہیں، سیاست دان آپس میں تو ڈائیلاگ کی ٹیبل رکھتے ہیں اور سیاسی خلا بھی، لیکن عوام الناس کے اندر کوئی اخلاقیات باقی نہیں، سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو طنز کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سچ اور جھوٹ لکھا جاتا ہے، ایک دوسرے کے خلاف پوسٹ کی جاتی ہیں اور انتہائی غیر مہذب تصاویر شائع کی جاتی ہیں، ان غیر اخلاقی سرگرمیوں سے نہ عوام الناس محفوظ ہے اور نہ ہی حکمران، اور نہ ہی پاکستان کے اعلیٰ ادارے محفوظ ہیں، جس سے پاکستان کی ساخت کو بھی نقصان ہوتا ہے اور پوری دنیا میں ہمارا مذاق بھی بنتا ہے۔

اعلیٰ اداروں اور خاص کر حکمرانوں کو اس سلسلے میں سوچنا پڑے گا کہ آخر ہم اس قوم کو کس نہج پر لے کر جا رہے ہیں، جس میں کوئی بھی محفوظ نہیں، حالانکہ اس قوم کی تعلیم و تربیت اعلیٰ اداروں اور حکمرانوں کا سب سے اہم کام ہے تاکہ یہ قوم کامیاب ہو، مہذب ہو اور بہترین معاشرہ تشکیل دیا جا سکے لیکن ہم اس کے برعکس ہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں مہذب ہوں، اخلاقی طور پر بہترین ہوں اور ہماری قوم ترقی کرے اور ہمارے نوجوان ملک پاکستان کا نام روشن کریں تو ہمیں نوجوانوں کو سیاسی غلاظت سے بچانا ہو گا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ملکی حالات سے بے خبر ہوں یا سیاسی کارکنان نہ ہوں یا سیاسی اقدامات کا حصہ نہ بنیں ہماری مراد یہ ہے کہ نوجوانوں کو ایسا پاکیزہ سیایسی نظام دیا جائے جس کو آج کے نوجوان عبادت سمجھ کر انجام دیں وہ اسے خدمت خلق جانیں، اور اس طرح انشاء اللہ ہم معاشرتی خوبصورتی کو حاصل کر لیں گے اور سر زمین پاکستان پہ ہر لحاظ سے خوشحالی و ترقی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments