روس کا مسلم اکثریتی شہر اوفا


اوفا روس کی جمہوریہ بشکورتستان کا دارالحکومت اور بشکوریا ریجن (علاقے ) کا ایک اہم شہر ہے۔ اس شہر کی تاریخ متضاد اور مخالف نظریات، اساطیر اور روایتوں کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔ یہاں سے نکالے جانے والے آثار قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ساتویں اور آٹھویں صدی قبل مسیح میں بھی انسانی آبادیاں، قلعے اور قبرستان موجود تھے۔ پانچویں سے دسویں صدی عیسوی کے آثار جدید کر یوسکی کے علاقے میں اشرافیہ کے قبرستانوں کے نشانات کی صورت میں اب بھی موجود ہیں۔

جدید اوفا کی تاریخ یہاں 1584 ؁ء میں قلعے کی تعمیر سے منسلک ہے۔ لیکن اس پر بھی اختلاف رائے ہے۔ اس تاریخ کا ذکر اور ن برگ حکومت کے سول گورنر جوزف ڈیبو کے کاغذات میں ملتا ہے۔ جس کے مطابق اس قصبے کی تعمیر بشکریوں کی درخواست پر کی گئی۔ اس مقبول نکتۂ نظر کا بانی کوئی گمنام سرکاری کارندہ ہے۔ ایک دوسرے نکتہ ء نظر جسے پیڑ ریچکوو کی تائید حاصل ہے، کے مطابق روسی غلبے اور قلعے کی تعمیر سولہویں صدی سے بہت پہلے اوفا کے مقام پر تو ریا خان اور اکنازار خان کے صدر مقام (مرکز) قائم تھے۔ یہ شہر مقامی حکمرانوں کا یک ثقافتی اور سیاسی مرکز تھا۔

روسیوں سے پہلے کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ علاقہ منگ بشکریوں کے زیر قبضہ تھا جو اپنا تعلق ہنوں (Huns) کے ساتھ جوڑتے تھے جو چین اور ہندوستان کے شمال میں رہتے تھے اور چوتھی صدی عیسوی میں جنوبی اور ال کے علاقوں میں آئے اور آندھی اور طوفان کی طرح ان سارے علاقوں میں پھیلتے چلے گئے۔ انہیں میں سے مشہور ہن اٹیلا بھی تھا جو ’قہر خداوندی‘ کے لقب سے مشہور تھا۔ ہن قدیم ترک زبان بولتے تھے جس سے بشکری، تاتاری، چیچن زبانیں نکلیں۔ اگرچہ آج کل کا ادب بشکریوں کے قدیم ایرانی نسلی تعلق اور روایتوں سے زیادہ جڑا ہوا ہے۔ مشہور محقق جی پورٹ مین کے مطابق منگ قبیلہ منگولیا کے اسی سے ملتے جلتے نام می انگ (MYNG ) ٰ منگاٹ سے ہے جس کی جمع منگ ہو سکتی ہے۔

ہمارے زمانے میں اس موضوع پر ریل کوزیو Rail Kuzeev جن کے نام پر روسی اکادمی آف سائنس کے اوفا سائنٹیفک سنٹر کا نام رکھا گیا ہے، نے جم کر لکھا ہے۔ تاہم بشکریوں کی ابتدا کے متعلق دلچسپ نظریات پائے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے عجیب یہ نظریہ ہے کہ قدیم یونانی اور ہندوستانی شروع میں

اور ال کے پہاڑوں میں رہتے تھے لیکن بعد ازاں انہوں نے ہندوستان اور یونان پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح دنیا کے بہت سے مشہور مورخین اور سیاسی مفکرین کے خیال میں اصل امریکنوں ( (NativeAmericansکا تعلق ترکمانوں سے تھا۔ امریکن تاریخ دان ایف ٹرنر کا بھی یہ خیال ہے کہ اصلی امریکیوں اور ترکمانوں کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔

اوفا کی تاریخ کی طرح اس کے نام کے بارے میں بھی متضاد نظریات ملتے ہیں ان میں سے ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس شہر کا نام دریائے اوفا کے نام پر ہے مگر اس نظریے کو پیٹرریچکو نے بڑی مضبوط دلیل کی بنیاد پر مسترد کیا ہے کہ جب اس مقام پر ایک بڑا دریا بیلایا بہتا ہے جس میں یہ چھوٹا سا دریائے اوفا جاگرتا ہے تو بڑے دریا کی بجائے چھوٹے سے دریا پر کیوں شہر کا نام رکھا جاتا؟

دراصل اوفا کے معرض وجود میں آنے سے بہت پہلے ہی اس جگہ کو اوفا کہا جاتا تھا۔ جب 1505ء میں کا ذان کے خان نے ماسکو میں کا راکلیم بت نامی شخص کو سفیر بنا کر بھیجا تو سفارت کے کاغذات میں اس کا لقب ’۔ شہزادہ اوفا‘ لکھا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوفا ترکی زبان کے لفظ اپا کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی ٹیکری، ٹیلا یا پہاڑی ہیں۔ اس شہر کا پرانا نام اپا ہی تھا مگر تاریخی تبدیلیوں سے گزرتے ہوئے حرف ’پ‘ حرف ’ف‘ میں بدل گیا اور اپا یا اوپا سے شہر کا نام اوفا ہو گیا۔

روس کے اس نسبتاً چھوٹے شہر میں چار خوبصورت مساجد موجود ہیں۔ مجھے سب سے خوبصورت مسج، مسجد لالے تلپاں یا لالا تلپاں لگی۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز کے اوفا کے سائنسی مرکز کے محققین کے مطابق اس نام کے ڈانڈے ترکی زبان سے جا ملتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کنول کا پھول (Tulip) یعنی تلپاں ترکی کی قومی علامت ہے۔ اس پھول کی شبیہ خلافت عثمانیہ کے جنگی ہتھیاروں پر کندہ کی جاتی تھی۔ آج یہ پھول ترکی ثقافت کے فروغ کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کا نشان (Logo) ہے۔

اور اس پھول کا انگریزی میں نام بھی تو ترکی لفظ Turban (یعنی پگڑی یا شملہ) جو اب انگریزی میں مستعمل ہے اور اس کی شکل بھی تو اس پھول سے بہت ملتی جلتی ہے بلکہ اس کی گول لڑیاں اس پھول کا بھر پور تاثر دیتی ہیں۔ پھر عربی زبان کے زیر اثر ترک بھی اس پھول کو لالے کہتے ہیں۔ اسی طرح ہم اردو میں بھی اسے لالہ کہتے ہیں جو حضرت امیر خسرو سے لے کر علامہ اقبال کے کلام تک ہر بڑے اردو اور فارسی شاعر کے کلام میں کھلتا نظر آتا ہے۔ اوفا کی اس خوبصورت مسجد کا نام روس کیے مفتیٔ اعظم جناب تلگت تاج الدین ( Talgat Tadzhutdin) نے تجویز کیا تھا۔

مسجد کے 53 فٹ اونچے دو مینار کنول پھول کی پنکھڑیوں کی صورت رکھتے ہیں۔ ان کا رنگ بھی سرخ ہے۔ میناروں سے آگے مسجد کے داخلے کے گیٹ تک چھوٹا سا صحن ہے لیکن میناروں سے پہلے بیرونی گیٹ تک بڑا وسیع صحن ہے جس کے باہر حفاظتی دیوار کے دروازے پر واعتصمو بحبل اللہ جمیعا کندہ ہے۔ پوری مسجد بھی لالے کے پھول کی پنکھڑیوں کی شکل میں بنائی گئی ہے۔ مسجد تین منزلوں پر مشتمل ہے اور اس میں مدرسہ بھی قائم ہے۔ مسجد کی اوپر کی منزل سے دیکھیں تو سامنے دور دور تک وسیع دریا بہتا نظر آتا ہے۔

دریا کے کنارے سڑک، اور سڑک پار کریں تو ایک وسیع و عریض جنگل یا پارک کہہ لیجیے، ہے جس کی چوٹی پر پہنچیں تو یک بیک یہ کنول کا پھول کھلا نظر آتا ہے۔ وحدت الہی اور ختم نبوت کے داعی کہاں کہاں پہنچے اور اپنے جلال و جمال کے انمٹ نشانات ثبت کیے ۔ مسجد کی باقی تین اطراف میں بھی یہ پارک نما جنگل یا جنگل نما پارک دور شہر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس جنگل کی اپنی زبان، اپنی چھب اور رنگ ڈھنگ ہیں۔ موسم سرما میں مسجد، صحن اور جنگل برف کی سفید چادر اوڑھے سوئے سوئے سے نظر آتے ہیں۔ خزاں کے موسم میں مسجد کے چاروں طرف پیلاہٹ اور سرخی کا رنگ غالب آ جاتا ہے۔ اس موسم میں یہ سارا ماحول اور مسجد دل کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ مگر موسم گرما میں چاروں اور گہرے سبز رنگ کے عین درمیان لالے تپلان کے سرخ مینار اور سرخ کھلی کونپلوں کی شکل کا اپنا ہی رنگ ہے۔

بقول اقبال
ع۔ معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
یا دوسری جگہ جو انہوں نے مسجد قرطبہ کے بارے میں فرمایا:
نقش ہر اک نا تمام، خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام، خون جگر کے بغیر

جب ہم وہاں گئے تو امام مسجد یہ جان کر انتہائی خوش ہوئے کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے۔ چھوٹے چھوٹے بشکری اور تاتاری بچوں نے جن کے لباس سبز اور سر پر سفید ٹوپیاں تھیں، ہمیں گھیر لیا۔ یہ سارے جو ناظرہ اور حفظ کے طالب علم تھے۔ پھول مسجد میں پھول سے بچے۔ امام صاحب نے تلاوت کلام پاک کی کیسٹ لگا دی۔ امام صاحب نے دعائے خیر بھی کرائی۔ کیا خوبصورت طرز تلاوت تھی کہ ہمیشہ کے لئے پر دۂ ذہن پر ثبت ہو گئی۔

اوفا شہر کے عین درمیان مسجد الرحیم ہے۔ میں جتنی بار اوفا گیا، اس مسجد کی تعمیر جاری تھی۔ آخری بار اس کے چاروں میناروں کی بیرونی تزئین و آرائش تکمیل کے آخری مراحل میں تھی۔ اس مسجد کو اوفا کی مرکزی جامع مسجد کا درجہ حاصل ہے۔ مسجد اسلامی طرز تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ راتوں میں جب مسجد کے چاروں مینار ہزاروں برقی قمقموں کی روشنی میں نہا جاتے ہیں تو یہ نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شہر میں کسی طرف سے بھی آئیں، آپ اس خوبصورت مسجد کے پاس سے ضرور گزرتے ہیں۔ اوفا کے مجموعی منظرنامے میں یہ مسجد مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

روس خواہ زاروں کا ہو یا کمیونسٹوں کا ، اس میں مسلمانوں کو اہم حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب شہر اوفا کی تعمیر و توسیع کی جار ہی تھی تو شہر میں بشکری اور دوسرے مسلمانوں کے داخلے پر مکمل پابندی عائد تھی۔ لیکن ملکہ کیتھرین (دی گریٹ) کی فہم و فراست اور وسیع القلبی کو داد دینی چاہیے کہ 22 ستمبر 1784ء کو روسی سلطنت کے غیر آرتھوڈاکس باسیوں کے لئے اوفا میں پہلا ادارہ تشکیل دیا جس کا نام اور ن برگ مسلم روحانی اسمبلی ( Orenburg Muslim Spiritual Assembly) رکھا گیا۔ جس نے اندرون روس اور سائبیریا کے تمام مسلمانوں کو متحد کیا۔ اسی طرح 1798ء میں روس کے مسلمانوں کی روحانی مجلس کا قیام بھی اوفا میں عمل پذیر ہوا۔

1865ء میں اوفا کو گورنوریٹ کا درجہ دے دیا گیا جب 1919 میں سوویت یونین کے اندر خود مختار بشکیر سویت اشتراکی جمہوریہ قائم کی گئی تو اوفا گورنوریٹ کو اس میں شامل کر دیا گیا۔ سویت دور میں روس میں شامل علاقوں میں بشکورتستان وہ واحد علاقہ تھا جسے وسیع تر خود مختاری کے اختیارات تفویض کیے گئے۔ معدنی وسائل سے مالا مال بشکورتستان میں 13000 چھوٹے بڑے ندی نالے اور دریا بہتے ہیں اور یہاں کے بہت سے بڑے دریا یورپی روس کے پانی کے ذریعے آمد و رفت کے وسیع نظام کا اہم حصہ ہیں جس کے ذریعے بحر قزوین سے، کالے سمندر (Black Sea) تک جایا جا سکتا ہے۔

اوفا کی تیسری مسجد جو دراصل اوفا میں قائم کی جانے والی پہلی مسجد ہے اور جس کا ذکر تاریخی اعتبار سے ضروری ہے وہ مسجد شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ہے۔ مسجد پر آویزاں بورڈ پر یہ نام روسی اور انگریزی زبانوں میں لکھا گیا ہے اور اسے انیسویں صدی میں قائم کی گئی مسجد کہا گیا ہے۔ اس کے روسی نام پر وایا گوبرنایا مچیت کا مطلب ہی قدیم مسجد ہے۔ جس اسٹریٹ میں یہ مسجد واقع ہے اس کے نام پر اسے تو کیو مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اور ن برگ مسلم روحانی بورڈ کے زیراہتمام دوسرے مفتی غابدی اسلام غاب دراخیموف (1840۔ 1765 ) نے ؁1830؁ء میں کرائی۔ یہ سادہ مگر پر وقار ایک مینار اور ایک گنبد والی مسجد عرصہ دراز سے مسلمانوں کے روحانی مرکز کا درجہ رکھتی ہے۔ مسجد کے ایک حصے پر گنبد ہے اور دوسرے پر مینار جن کا گہرا سبز رنگ ہے۔

مسجد کے بیرونی صحن سے لے کر مسجد کی عمارت تک خاصا بڑا قطعہ ہے جس کے گردا گرد خوبصورت دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ یوں پوری مسجد کا علاقہ خاصا وسیع و عریض ہے۔ کچھ ہی دور ہر دو اطراف میں دریا بہہ رہا ہے اور کچھ ہی دور اوفا شہر کے دونوں حصوں کو ملانے والا پل ہے۔ سر سبز درختوں میں گھری یہ مسجد سال کے مختلف موسموں میں متنوع مناظر پیش کرتی ہے۔ کبھی سفید، کبھی سرخ، قرمزی اور کبھی نارنجی و سرخ۔

اوفا شہر کے جنوبی حصے میں تعمیر کی جانے والی مسجد پچیس انبیاء اپنی ایک جداگانہ انفرادیت رکھتی ہے۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز 16 جون 1995ء میں ہوا اور اس کی تکمیل 16 جون 2010 کو ہوئی۔ اس مسجد کی انفرادیت اور الگ شناخت اس کے نام اور طرز تعمیر میں موجود ہے۔ اس مسجد کو تعمیر کرنے والوں کے خیال میں دنیا بھر میں کسی بھی مسجد کا نام ان 25 انبیاء کرام کے نام پر نہیں رکھا گیا جن کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ طرز تعمیر کے حوالے سے اس مسجد کا ایک بڑا گنبد ہے جو پوری مسجد پر محیط ہے مگر اس کا مینار الگ سے کوئی نہیں۔ سو یہ بغیر میناروں کے مسجد ہے۔

مساجد اور چرچوں کے علاوہ اوفا میں حسین بے اور تورا خان ( جو چنگیز خان کی اولاد سے تھا) کے علاوہ اور مسلمانوں کے مقبرے بھی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اوفا کے اہم مقامات میں کے جی بی کا عجائب گھر بھی شامل ہے جو اب انجن فیکٹری میں واقع ہے جہاں سویت دور میں جہازوں کے انجن تیار کیے جاتے تھے اور مشرقی یورپ کے حلیف ممالک کو برآمد کئے جاتے تھے۔ یہاں ایک چھوٹا سا لینن میوزیم بھی اس گھر میں موجود ہے جہاں 1900 کے دور میں لینن کی بیوی ندیزدا کر پسکایا رہتی تھی جس نے اپنی یادداشتوں میں لینن کے یہاں آنے اور دو دن رہنے کا تذکرہ کیا ہے جس کے بعد وہ سینٹ پیٹرز برگ کے گرد و نواح میں روپوش ہو گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments