کیا غدار صرف میر جعفر تھا؟


بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان تاریخ کے ساتھ وہ کھلواڑ کرتے ہیں جو یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ پرانے وقتوں میں راجہ، نواب، بادشاہ خود اپنی فوج کے کمانڈر انچیف بھی ہوتے تھے اور دست بدست لڑائی میں بھی شرکت کرتے تھے۔ نواب سراج الدولہ بنگال کے گورنر نہیں بلکہ خود مختار حکمران تھے۔ بنگال کی تاریخ آریائی قبیلے سے بھی قبل کول، سنتھال اور دیسی قبائل کی صورت میں صدیوں پرانی ملتی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگال صدیوں پرانی تاریخ رکھتا ہے۔

آٹھویں صدی عیسوی میں بدھ مت کے پیروکار پال خاندان کے تیسرے فرمانروا دیو پال نے مگدھ شہنشاہوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بنگال کا پہلا شہنشاہ ہونے کا شرف حاصل کیا۔ اسی خاندان کے فرمانروا ماہی بال نے نویں صدی عیسوی میں بنگال میں پہلے آبپاشی کے بڑے منصوبے بنوائے تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ اس خاندان کو صرف بدھ مت سے دشمنی کی وجہ سے تخت سے الگ کیا گیا اور ہندوؤں کے پہلے سینا خاندان نے بنگال پر اپنی راجدھانی کا اعلان کیا۔

سین خاندان نے بنگال کو بدھ مت سے ہندو مذہب میں تبدیل کرنے کے پورے پورے انتظامات کیے ، بدھ مت کی آخری نشانی تک مٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ مسلمانوں نے پہلی دفعہ بارہویں صدی عیسوی میں بختاور خلجی ترک قبیلے کے افغانستانی کی سربراہی میں سین خاندان کے آخری فرمانروا کو شکست دے کر بنگال میں مسلمانوں کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ خلجی خاندان کے مشہور و معروف گورنر غیاث الدین خلجی نے بنگال کی تعمیر و ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

خلجی خاندان سے التمش نے بنگال کو اپنے لئے سرنگوں کیا۔ التتمش کے بعد بلبن کے گورنر طغرل خان نے بغاوت کا اعلان کیا مگر شہنشاہ بلبن نے طغرل خان کی بغاوت کو کچل کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بلبن سے جلال الدین خلجی نے دلی حاصل کیا لیکن بنگال پر بلبن خاندان ہی قابض رہا۔ تیرہویں صدی عیسوی میں تقریباً ڈیڑھ سو سال الیاس شاہی خاندان بنگال پر قابض رہا۔ چودھویں اور پندرہویں صدی عیسوی ( 1493۔ 1519 ) میں بنگال کے حسینی خاندان کے بادشاہ علاءالدین حسین اور اس کے بیٹے نصرت شاہ نے بنگال کی تعمیر و ترقی میں بہت زیادہ کردار ادا کیا ان کے دور میں بنگال میں کوئی بغاوت حملہ وغیرہ نہیں ہوا۔

اس خاندان نے بنگال میں کئی مدارس قائم کیے۔ اس دور میں یہ واحد خاندان تھا جنہوں نے بنگال میں تمام مذاہب کو پیار اور محبت کرنا سکھایا۔ پندرہویں صدی میں بابر نے لودھی خاندان کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا لیکن بابر کو بنگال کی حکمرانی نصیب نہیں ہوئی۔ 1533 عیسوی میں شاہ خاندان سے بنگال شیر شاہ سوری خاندان نے بزور بازو چھین لیا اور شیر شاہ سوری خاندان کی بنیاد رکھی۔ ہمایوں اور شیر شاہ سوری کی لڑائی میں جب ہمایوں کو شکست ہوئی اور وہ ایران کی طرف بھاگ نکلا تو دہلی کا قبضہ بھی شیر شاہ سوری کے پاس آ گیا تب شیر شاہ سوری نے بنگال کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا اور اس کے نظم و نسب کا کافی انتظام کیا۔ جلال الدین اکبر نے سنہ 1555 میں افغانوں کو شکست دے کر بنگال کو مغل سلطنت کے زیر نگیں کر لیا۔

سنہ 1740 میں علی وردی خان نے دلی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے بنگال میں آزاد حکومت کی بنیاد ڈالی جس کے پوتے سراج الدولہ نے انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا لیکن جنگ پلاسی کی شکست کے کارن ساڑھے چھ سو سال بعد بنگال ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ لیکن کیا غدار صرف میر جعفر تھا؟

حادثے ایک دم رونما نہیں ہوتے۔ سنہ 1606 میں جہانگیر کے دربار میں کیپٹن ولیم ہاکنز نے سفیر کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور اس کے بعد مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہونا شروع گیا تھا۔ برصغیر میں مغلیہ سلطنت، سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی شکست کا سبب صرف میرجعفر اور میر صادق نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کی اپنی تخت نشینی کے لیے جنگ، ناقص پالیسیاں اور ہندوؤں کو اعلیٰ عہدوں پر نوازنے جیسے اقدامات بھی شامل تھے۔ انگریز کے آنے سے پہلے ہندو طاقت میں نہیں تھے جب کہ ہندو ہمیشہ سے یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے اقتدار ہندوؤں سے چھینا ہے، ہندوستان کے اصل راجہ، مالک، بادشاہ وہ ہیں۔

جیسے ہی ہندوؤں کو انگریز کا بیرونی کندھا میسر ہوا ان کے ارادے کھل کر سامنے آنے شروع ہو گئے۔ انگریز بھی اس بات سے بخوبی واقف تھے لہذا انہوں نے ہندوستان فتح کرنے کے لئے ہندوؤں کا بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ اکبر کے دربار سے جو ہندوؤں کو اعلی عہدوں پر نوازنے کا کام شروع ہوا تھا وہ سراج الدولہ تک ختم نہیں ہوا تھا۔ انگریزوں تجارت کی غرض سے آئے تھے انہوں نے تجارت سے ہٹ کے قلعے تعمیر کیے تجارتی کوٹھیاں بنائی اپنی فیکٹریاں لگائی لیکن مسلمان اپنی عیاشیوں میں مست رہے انہوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی اور انگریز دن بدن برصغیر میں مضبوط ہوتے گئے۔

انگریزوں نے سوات، بروچ اور احمد آباد میں فیکٹریاں اور تجارتی کوٹھیاں قائم کر لی، مدارس اور چندرگری میں تجارتی فیکٹریاں بنالی، فورٹ سینٹ جارج قلعہ تعمیر کر لیا لیکن مغل حکمرانوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ سولہ سو اٹھاون میں ڈھاکہ میں تجارت کے بہانے انگریزوں نے اپنی فیکٹریاں قائم کی۔ نواب سراج الدولہ سے قبل ہی بنگال میں انگریزوں کی الگ بستیاں تھیں اور ہندو تاجر ان میں جا کر آباد ہونا شروع ہو چکے تھے۔ تاجروں کو انگریزوں کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔

نواب سراج الدولہ تخت نشین ہوتے ساتھ ہی اندرونی سازشوں کا شکار تھے۔ علی وردی خان کی بڑی بیٹی غیشتی بیگم شوکت جنگ کو بنگال کی حکومت دینا چاہتی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ نواب سے بھی کافی سیاسی غلطیاں ہوئیں جن میں سرفہرست ہندو راجہ رام نرائن، کرشن داس اور کئی ہندوؤں کو عہدوں پر فائز کرنا تھا۔ جنہوں نے ہندؤ زمینداروں کو نوازا اور انگریزوں سے ساز باز کی۔ مرشد قلی خان انگریزوں کے لیے انتہائی نرم گوشہ رکھتے تھے اور درپردہ انگریزوں سے اس کے تعلقات قائم تھے نواب کو علم تھا۔ لطف یار خان اور میر جعفر کی انگریزوں کے ساتھ سازباز کئی بار نواب صاحب کے علم میں لائی گئی لیکن نواب درگزر کرتے رہے۔

9 فروری 1757 کو نواب نے انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے بعد کلائیو نے نواب سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے واٹسن کو کمپنی کی طرف سے مرشد آباد میں سفیر مقرر کر دیا۔ امی چند نے واٹسن سے انتہائی اچھے تعلقات رکھے اور ایک ایک لمحے کی خبر کلائیو کو پہنچاتے رہے ان تمام تاریخی حقائق کے باوجود غدار صرف میر جعفر کیوں؟

ان غداروں کی ایک لمبی لسٹ، ہندوؤں اور مرہٹوں کی ریشہ دانیوں کے باوجود نواب نے کئی مقامات پر انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ 4 جون 1757 کو قاسم بازار میں انگریزوں کی فیکٹری پر قبضہ کر لیا۔ کلکتہ کے مقام پر انگریزوں کے قلعہ کا محاصرہ کر کے ڈریک کو شکست سے دوچار کیا۔ ہگلی کے مقام پر اپنی فتح کے شادیانے بجائے انگریزوں کے حواری شوکت جنگ کو موت کے گھاٹ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو خط بھی لکھا کہ اپنے تجارتی حدود سے تجاوز کرنا بند کرے فوجی اور دفاعی و کارروائیاں سے بار رہے۔

لیکن 22 جون 1757 کو کو پلاسی مقام پر وہ مشہور و معروف جنگ جس کو جنگ پلاسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لڑی گئی۔ مطالعہ پاکستان میں تو صرف میر جعفر کا نام ہی شامل ہے مگر غداروں میں مانک چند، نند کمار، رائے درلابھ، راج بالبھ، میر جعفر، خادم حسین اور موہن لال کے نام بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ دنیا کی وہ جنگ ہے جو پچاس ہزار کے مقابلے میں 3 ہزار 200 فوجی جیت گئے تھے۔ میر مدن اور نواب سراج الدولہ نے آخری لمحات تک انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن جب آپ کی فوج لڑے بنا بھاگنا شروع ہو جائے آپ کا صرف ایک کمانڈر میر جعفر نہیں بلکہ تمام کمانڈر موہن لال، خادم حسین مخالف فوج کے ساتھ مل جائیں اور ان کے سپاہی لڑنے سے انکار کر دیں تو آخر آپ کب تک لڑ سکتے ہیں؟ مجبوراً نواب سراج الدولہ کو بھی یہ جنگ چھوڑ کر بھاگنا پڑا نواب سراج الدولہ کو میر جعفر کے بیٹے میرن نے راج محل کے قریب گرفتار کر لیا اور میر قاسم کے غلام محمدی بیگ نے قید خانے میں نواب سراج الدولہ کو شہید کر دیا۔

ان تمام غداروں کے باوجود نواب سراج الدولہ بہادری کا نشان تھا برصغیر میں مسلمانوں کی ٹیپو سلطان سے پہلے آخری امید تھے یا آپ نواب سراج الدولہ کو برصغیر کی جنگ آزادی کا پہلا شہید بھی کہہ سکتے ہیں۔ نواب سراج الدولہ فقہ اہل تشیع سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے مرشد آباد میں ایک نہایت عمدہ امام بارگاہ اور مسجد کی تعمیر کروائی۔ نواب سراج الدولہ بہت چھوٹی عمر میں حکمران بنے اور بہت ہی تھوڑا عرصہ حکمرانی پر فائز رہے ان کا دور حکمرانی صرف ایک سال اور دو یا تین مہینے بنتا ہے اور آپ نے اس قلیل دور حکومت میں بھی جنگوں میں مصروف رہے انگریزوں کا قلع قمع کرنے کے لیے سرگرم عمل رہے۔

لہذا اس دور حکومت میں ان کے کوئی ترقیاتی کام نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان کو کرنے کا موقع ملا۔ نواب سراج الدولہ کی پیدائش سے قبل ہی انگریز برصغیر میں اپنے قدم نہایت مضبوطی کے ساتھ جما چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments