امریکہ میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہو گئی


امریکہ
امریکہ کے ایوان صدر وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ میں کووڈ کی عالمی وباء سے مرنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ نے بدقسمتی سے یہ ‘اندہوناک سنگ میل’ عبور کر لیا ہے اور ہر ایک موت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔

کووڈ کی عالمی وباء سے ہلاک ہونے والوں کی سرکاری طور پر تسلیم شدہ یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ گو کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دوسرے کئی ملکوں میں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگوں اس وائرس کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

لاک ڈاؤن میں تندولکر اور دیگر ستارے کیا کر رہے ہیں؟

لاک ڈاؤن میں رمضان کے مناظر

’قرنطینہ مرکز جانے سے بہتر ہے کہ گھر پر ہی مر جائیں‘

امریکہ میں کرونا وائرس کی لپیٹ میں آنے والوں کی تعداد آٹھ کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ امریکہ کی کل آبادی 33 کروڑ ہے۔

امریکہ میں 20 جنوری سنہ 2020 کو کورنا وائرس میں مبتلا ہونے والے پہلے مریض کا پتا چلا تھا جو چین کے شہر وہان سے سی ایٹل میں اپنے گھر واپس پہنچا تھا۔ یہ 35 سالہ شخص نمونیہ، کھانسی، بخار اور قے کی شکایت میں دس دن تک مبتلا رہنے کے بعد صحت یاب ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے چند ہی ہفتوں بعد اموات کی خبریں آنی شروع ہو گئیں تھیں۔

اس کے بعد سے دو سال تک اموات اور مریضوں کی تعداد بڑھتی اور گھٹتی رہی ہے۔ جس طرح وائرس ملک بھر میں پھیلتا گیا اس وباء کی لہریں آتی رہیں اور سنہ 2021 کے اوائل میں اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد ایک دن میں چار ہزار کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی۔

صحت عامہ کے ماہرین امریکہ میں اموات کی تشویش ناک شرح کی کئی وجوہات پیش کرتے ہیں۔ ان میں لوگوں میں پائے جانے والے موٹاپے، ذہنی دباؤ، ہسپتال اور طبی مراکز پر مریضوں کا دباؤ اور بوڑھے لوگوں کی زیادہ آبادی جیسی وجوہات شامل ہیں۔

امریکہ میں مختلف ریاستوں میں مرنے والوں کی موت کی وجہ کرونا وائرس کو قرار دینے کا طریقہ کار مختلف تھا اور اموات کی وجہ اکثر اوقات صرف کرونا وائرس نہیں ہوتی تھی۔

یہ اموات کب واقع ہوئیں

امریکہ میں اموات کی شرح میں کئی مرتبہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور اکثر ایسا اُس وقت ہوا جب اس وائرس کی نئی قسم نے ملک میں پھیلنا شروع کیا۔

پہلی لہر وباء کے ابتدائی دنوں اپریل سنہ 2020 میں اموات کی تعداد 2500 روزآنہ تک پہنچ گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جس کے آٹھ ماہ بعد اسی سال دسمبر میں وائرس سے بچاؤ کی پہلی ویکسن بنائی گئی۔

امریکی کی ریاست اوہائیو کی کیس ویسٹرن یونیورسٹی میں صحت عامہ کے شعبے سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر مارک کیمرون نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘خطرناک لہریں وائرس کی نئی اقسام کے سامنے آنے کے بعد ہی دیکھنے میں آئیں جب ہسپتال مریضوں سے بھر گئے اور اموات بہت زیادہ ہوئیں ۔’

امریکہ میں وائرس سے مرنے والے دس لاکھ افراد کی اکثریت اس وقت ہلاک ہوئی جب ویکسین متعارف ہو چکی تھی۔ اس کی وجہ وباء کی لپیٹ میں آنے والے افراد کی کثیر تعداد تھی اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ویکسین مؤثر ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ ویکسن نے بہت بڑی حد تک وائرس سے ہلاکتوں کے خطرے میں کمی کی۔

امریکی نجی ادارے رینڈ کارپوریشن کی ایک تحقیق کے مطابق ویکسین کے ٹیکے لگائے جانے سے امریکہ میں مئی سنہ 2021 تک ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں کی جانیں بچانے میں مدد ملی۔

ایک اور تحقیق جو پیٹرسن سینٹر فار ہیلتھ اور کائزر فیملی فاونڈیشن نے اس سال اپریل میں کرائی اس کے مطابق امریکہ میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے بدقسمت افراد کی ایک چوتھائی تعداد یعنی دو لاکھ 34 ہزار افراد کی زندگیوں کو ویکسین سے بچایا جا سکتا تھا۔

ڈاکٹر کیمرون کا کہنا ہے کہ آپ اسے صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ وبا ان مریضوں کی تھی جنہیں ویکسین نہیں لگی۔ ہر شخص کسی ایسے مریض کو جانتا ہے جس کو ویکسینن کے تمام ٹیکے لگائے جا چکے تھے اور پھر بھی وہ شدید علیل ہو گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہے کہ کووڈ 19 سے ہلاکتوں کا خطرہ ان لوگوں میں سب سے زیادہ رہا جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔

انڈیا

انڈیا میں مرنے والوں کی تعداد سرکاری طور پر تسلیم کردہ اعداد و شمار کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے

امریکہ میں اموات کن علاقوں میں ہوئیں

امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں کیلیفورنیا میں ہوئیں جہاں تقریباً 90 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

کیلیفورنیا کے بعد ٹیکساس میں تقریباً 86 ہزار، فلوریڈا میں تقریباً 74 ہزار اور نیویارک میں تقریباً 68 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

فی کس کی بنیاد پر، سی ڈی سی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مسیسیپی کو فی 100,000 رہائشیوں میں تقریبا 418 اموات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے بعد ایریزونا 414، الاباما 399 اور ویسٹ ورجینیا 384 ہیں۔

ان ریاستوں میں فی کس اموات کی شرح تقریباً 300 فی 100,000 کی اوسط امریکی قومی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔

ماہرین کئی وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے بعض ریاستوں کو غیر متناسب طور پر نقصان پہنچا، بشمول صحت کی دیکھ بھال تک غیر مساوی رسائی کے۔

سائراکیوز یونیورسٹی میں وبائی امراض کے ماہر اور عالمی صحت کے ماہر برٹنی کمش نے کہا کہ سماجی و اقتصادی حیثیت اکثر وجہ بنتی ہے "آکسیجن والے ہسپتالوں تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہونا اور جب مریضوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے"۔

کیلیفورنیا سان فرانسسکو یونیورسٹی میں متعدی امراض کی ماہر اور پروفیسر ڈاکٹر مونیکا گاندھی نے کہا کہ ویکسین لگوانے سے ہچکچاہٹ بھی بعض ریاستوں میں زیادہ اموات کی وضاحت کرتی ہے۔

ان کے تجزیے کے مطابق، صحت عامہ کے حفاظتی اقدامات جیسے ماسکنگ یا الگ تھلگ نہ رہنے کے مقابلے میں حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔

کینیڈا

کئی ملکوں میں لوگوں نے احتیاطی اقدامات اختیار کرنے سے انکار بھی کیا

آبادیاتی رجحانات

اگرچہ ہر عمر اور نسلی گروہوں میں اموات ہوئی ہیں، ماہرین کا مشاہدہ ہے کہ آبادی کے بعض طبقوں میں مرنے کا امکان زیادہ رہا ہے خاص طور پر بوڑھے اور وہ لوگ جو دیگر امراض میں مبتلا تھے۔

حکومتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں کووِڈ سے ہونے والی زیادہ تر اموات، تقریباً سات لاکھ 40 ہزار، ان لوگوں کی ہوئیں جن کی عمر 65 سال سے زیادہ تھی۔

ڈاکٹر کیمرون نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "شدید بیماری اور موت کو دیکھتے ہوئے، پوری وبا کے دوران ان ہی لوگوں کی اموات زیادہ ہوئی ہیں جو یا تو عمر رسیدہ تھے یا دوسری بیماریوں میں مبتلا تھے۔

کینزر فیلمی فاونڈیشن نے جب سی ڈی سی کے جمع کردہ اعداد و شمار کا تجزہ کیا تو انھیں معلوم ہوا کہ وبا کے ابتدائی دنوں یعنی 2020 میں سیاہ فام، ہسپانوی نژاد اور مقامی امریکی آبادی میں وائرس سے متاثر ہونے والے افراد اور اموات کی شرح زیادہ رہی۔

صحت عامہ کے ماہرین اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں ویکسین لگوانے سے انکار، کام اور رہائشی حالات کی وجہ سے وباء سے متاثر ہونے کا زیادہ امکان جیسے عوامل شامل ہیں۔

ڈاکٹر گاندھی کہتی ہیں اس کی ایک وجہ کام پر جانے کی مجبوری بھی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ویکسین کے آنے کےبعد بھی سیاہ فام اور ہسپانوی نژاد افراد میں ویکسین لگوانے کے بارے میں شدید شکوک و شبہات پائے جاتے تھے لیکن وائرس کی ڈیلٹا قسم سامنے آنے کے بعد لوگ واقعی خوف زدہ ہو گئے تھے۔’

حقیقی تعداد؟

اگرچہ CoVID-19 سے اب سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، وائرس کی بالواسطہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے، صحت کے نظام میں خلل اور وائرس کے پکڑے جانے کے خوف سے طبی امداد لینے میں ہچکچاہٹ کے نتیجے میں۔

مئی 2021 میں جریدے PLOS میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ کووِڈ کو براہ راست سبب قرار دی گی ہر 100 اموات کے علاوہ 20 "اضافی" اموات ہوئیں- ان میں سے اکثر "کم سماجی و اقتصادی حیثیت" والے علاقوں میں ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جمعرات کو جاری کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 2020 اور 2021 کے دوران فی 100,000 افراد میں 140 اضافی اموات ہوئی ہیں – جو کہ اوسطاً متوقع طور پر تقریباً 930,000 زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔

ڈاکٹر کیمرون نے کہا کہ "لوگ سرجری کا انتظار کر رہے تھے اور اپنے ڈاکٹروں کو دیکھا نہیں پا رہے تھے، اور سنگین بیماریوں کی تشخیص کے مواقع ضائع ہوئے۔"

ڈاکٹر کیمرون نے مزید کہا کہ یہ خاص طور پر 25 سے 64 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے درست ہے۔

"کووِڈ 19 کے ہماری مجموعی بیماری اور شرح اموات پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کے قریب آنے میں کئی سال لگیں گے۔"


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments