پر کشش گھروں کی دوڑ!


آج کل پاکستان میں اپنی مختصر چھٹی کے دن گن رہا ہوں، اس دوران مختلف جگہوں پر جانے کا اتفاق ہوا، اور جس چیز نے زیادہ حیرت میں ڈالا وہ تھی، مسلسل مہنگائی کا رونا رونے والی قوم میں، اونچے اونچے مکانات اور پر کشش گھروں کی تعمیر کی آپس میں مقابلہ بازی۔ اگر موجودہ دور میں دن بدن بڑھتی مہنگائی ایک مسلمہ حقیقت ہے تو یہ بھی جھوٹ نہیں کہ ضروریات سے بڑھ کر خواہشات پوری ہونے کی تمنا اور عیش و عشرت والی زندگی کے شوق نے ہمارا چین و سکون غارت کر دیا ہے۔

مکانات پر بے تحاشا خرچ کو دیکھ کر یوں لگتا ہے گویا دنیا اب مسلمان کی نظر میں دار الامتحان یا دار العمل نہیں رہی، بلکہ ایک عیش کدہ اور تفریح گاہ بن چکی ہے۔ بلا شبہ کسی کے پاس زیادہ مال و دولت کا ہونا کوئی عیب نہیں ہے بلکہ حلال مال و دولت یقیناً بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اس کو صحیح جگہ میانہ روی کے ساتھ خرچ کرنے کا ہنر جاننا بھی اسلام کی تعلیم ہے۔

اسلام دنیوی ترقی اور مال و دولت سے فائدہ اٹھانے اور اسباب زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونے سے منع بھی نہیں کرتا، بشرطیکہ انسان اپنے پیدا کرنے والے کے نازل کردہ ضابطہ حیات سے ہٹ کر زندگی نہ گزارے۔

آج بیشتر لوگوں کی سب سے بڑی آرزو یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح اپنی زندگی میں عیش و عشرت کے تمام وسائل فراہم کرسکیں۔ افسوس مگر یہ ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عموماً حرام ذریعہ آمدن کو بھی بخوشی اختیار کر لیا جاتا ہے، حالانکہ اس امت کے مقتدا اور پیشوا نے اپنی امت کے حوالے سے اس خوف کا اظہار نہیں فرمایا تھا کہ وہ معاشی اعتبار سے پسماندہ ہو جائے گی اور یا پھر فقر و فاقے کی وجہ سے اسے ذلت و رسوائی سے دو چار ہونا پڑے گا، بلکہ اس کے برعکس آپ ﷺ نے فرمایا تھا:

”مجھے تمہارے متعلق محتاجی سے ڈر نہیں لگتا، مجھے تو اس کا خوف ہے کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر کشادہ کی گئی تھی، پھر پہلوں کی طرح اس کے لیے تم آپس میں رشک کرو گے اور جس طرح وہ ہلاک ہو گئے تھے تمہیں بھی یہ چیز ہلاک کر کے رہے گی۔ (بخاری)

حسب استطاعت اپنے گھر کی تعمیر یا شادی بیاہ وغیرہ پر زیادہ مال خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ اصول بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں ضرورت ہو وہاں لاکھوں خرچ کرنے میں بھی مضائقہ نہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی اسلام حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ آج مکانات کی تعمیر اور شادی بیاہ وغیرہ پر محض نام و نمود اور شہرت کے لیے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے شوق نے قوم کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی ڈپریشن کا شکار کر کے ذہنی سکون اس سے چھین لیا ہے۔

اس حوالے سے مصطفی محمود کی کتاب (الشیطان یحکم) کا ایک اقتباس فائدے سے خالی نہیں ہو گا، چنانچہ آپ لوگوں کی عیش کوشی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”مجھے ان لوگوں پر بڑا تعجب ہوتا ہے اور انہیں دیکھ کر پوری طرح حیران ہوجاتا ہوں جو ایک ایک پائی جمع کر کے مال ذخیرہ کرتے ہیں، اور پھر بلند و بالا مکانات تعمیر کرتے ہیں۔ وہ گھر کی رونق اور شان و شوکت پر ایسا خرچ کرتے ہیں، گویا یہ ایک ابدی مقام ہے، جس میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں اپنے آپ سے کہتا ہوں، کیا یہ لوگ، بھول چکے ہیں کہ وہ اس دنیا میں ٹرانزٹ پر ہیں؟

کیا ان میں سے کسی ایک کو بھی یہ یاد نہیں رہا کہ ایک دن وہ اپنے باپ کا تابوت لے کر قبر کی طرف گیا تھا اور کل اس کا بیٹا اس کی نعش ایک ایسے گڑھے کی طرف لے کر چلا جائے گا کہ جس میں سب کے سب برابر ہیں؟ کیا مسافر کو ایک عدد چارپائی اور سفری بستر سے بڑھ کر بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور کیا ایک جہاں گشت کو منتقل کیے جانے والے خیمہ کے علاوہ بھی کسی چیز کی ضرورت ہے؟

پھر یہ خالی شان و شوکت اور تزک احتشام کیوں اور کس کے لیے؟
ایسی عیش و عشرت کا کیا معنی اور کیوں
جہاں سے ہم کل، پرسوں کوچ کرنے والے ہیں؟

کیا ہم اس قدر بیوقوف ہیں؟ یا ہماری آنکھوں پر دھوکے، غفلت اور لالچ کا پردہ ہے؟ یا پھر یہ خواہشات کا اندھا پن، آرزوؤں کی آگ اور وہموں کی دوڑ ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہم جیتتے ہیں وہ محض فریب ہے، اور ہر وہ چیز جو فی الحال ہمارے قبضے میں ہیں یا ہم نے ہاتھ میں پکڑی ہے، بہت جلد باد مخالف کے ساتھ اڑ جائے گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments