لانگ مارچ: یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں


ایسا لگتا ہے کہ جلد اسلام آباد اگست 2014 کے واقعات کو دوبارہ عکس بند ہوتے ہوئے دیکھے گا۔

اب اس میں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آنے والے احتجاج یا لانگ مارچ کو پہلے کی طرح حساس ادارے کے سربراہان کی مدد و کمک حاصل ہو گی یا عمران خان کو یہ معرکہ اکیلے ہی سر کرنا ہو گا۔ اگر سیاسی چالوں کے ماہر ان کہنہ مشق شخصیات اور اہم ریاستی اداروں کی مدد کے باوجود اگست 2014 کی سیاسی معرکہ آرائی ناکام ہوئی تو اب بظاہر ان شخصیات اور اداروں کے نیوٹرل ہو جانے کے بعد اس لانگ مارچ کا کیا مستقبل ہو گا؟

پی ٹی آئی کے ہمدرد تو کافی بڑی تعداد میں عوامی جلسوں میں آ رہے ہیں مگر کیا وہ ایک سخت موسم میں ایک لمبے احتجاج کے لیے تیار ہوں گے؟ کیا عمران خان کے مسلسل بدلتے ہوئے بیانیے کے باوجود بھی وہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھ سکیں گے؟

بظاہر انہوں نے امریکی سازش کے طاقتور بیانیے کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اس غبارے سے ہوا نکال دیتے ہوئے انہوں نے حالیہ انٹرویو میں امریکی دخل اندازی کے مفروضے سے ہٹتے ہوئے اعتراف کیا کہ انہیں مخالف جماعتوں کا ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے سازشوں کا جولائی 2021 میں پتہ چل گیا تھا اور وہ اسی لیے ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حساس ایجنسی کے سربراہ کو اپنے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔

اس انٹرویو میں مبینہ امریکی سازش کے بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے وہ یہ اعتراف کر رہے تھے کہ وہ حساس ریاستی ایجنسی جس کا بنیادی مقصد ریاست کی حفاظت اور اس کے خلاف سازشوں کا قلع قمع کرنا ہوتا ہے، وہ اسے اپنے ڈوبتے ہوئے اقتدار کو بچانے کے لیے استعمال کر رہے تھے یا کرنا چاہتے تھے۔

اس ’یو ٹرن‘ کے بعد بھی عمران خان کے چاہنے والے جو ان کے سو خون معاف کرنے کو تیار ہوتے ہیں ان کی امریکی سازش والے اس بیانیے میں تبدیلی کا بھی جواز تلاش کرتے ہوئے ان کی حکومت کے خاتمے کو ایک بڑی سازش سے تعبیر کریں گے اور اس طرف کم دھیان دیں گے کہ ان کی حکومت کا خاتمہ گورننس کی ناکامی، پی ٹی آئی میں عمران خان کے رویے کے خلاف بغاوت اور ان کی اتحادی جماعتوں کی ان سے مایوسی کی وجہ سے ہوئی نہ کہ کسی بیرونی سازش کے سبب۔

کیا اس عدم اعتماد کی تحریک کے پیش کیے جانے کے بعد انہوں نے خدا کا شکر ادا نہیں کیا تھا کہ وہ اس کے ذریعے مخالف جماعتوں کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے؟

یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ عمران خان کسی قسم کے مصلح یا بصیرت والے رہنما نہیں بلکہ ایک عام سیاست دان ہیں جن کا مطمح نظر دوسرے عام سیاست دانوں کی طرح ہر حال میں اقتدار حاصل کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے پیروکاروں کو گمراہ بھی کر سکتے ہیں اور ہر اس سیاسی و غیر سیاسی قوت سے ہاتھ ملانے کو تیار ہوتے ہیں جس سے انہیں اقتدار حاصل ہو سکے یا ان کے اقتدار کو دوام مل سکے۔

ان کا 2018 میں حکومت بنانا اور نظریاتی مخالف سیاسی قوتوں کو ساتھ ملانا جنہیں وہ پہلے ڈاکو، چور اور بہت سے برے بھلے خطابات عطا کر چکے تھے، انہیں ایک عام اور ہر حالت میں اقتدار چاہنے والا سیاست دان ہی ثابت کرتا ہے۔ ان کا ایک آئینی عمل اور عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار، اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش اور صرف من پسندیدہ عدالتی فیصلوں کو ماننا ظاہر کرتا ہے کہ وہ جمہوری ذہن نہیں رکھتے اور انہیں ایک فسطائی ذہن کے رہنما کی طرح صرف اپنی ہی حکومت قابل قبول ہے۔

پی ٹی آئی کے جوشیلے حامیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 2018 کے انتخابات جن میں پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور اس کے نتائج کے بارے میں واضح شکوک پائے جاتے ہیں، اس مشکوک انتخابی عمل میں بھی پی ٹی آئی 30 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر پائی۔ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی مخالف جماعتوں نے 65 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

2018 کے انتخابات میں بھی بھی عمران خان بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے رہے اور ان کے حامی کافی جوش و خروش سے انتخابی مہم چلاتے رہے، اس لیے ضروری نہیں کہ اگلے انتخابات میں میں انہیں آسانی سے کامیابی نصیب ہو۔ بڑے جلسے انتخابی کامیابی کی ضمانت نہیں ہو سکتے۔ اس لیے انہیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر اس سال یا اگلے سال انتخابات ان کی پارٹی نہیں جیت پاتی تو کیا اس کے نتائج کو بھی یہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے ملک کو ایک مسلسل سیاسی بحران کا شکار رکھیں گے؟ کیا پی ٹی آئی کو صرف وہی نتیجہ قابل قبول ہو گا جس میں وہی کامیاب ہو؟

پی ٹی آئی کو لانگ مارچ کی تیاری اور اس کی ممکنہ کامیابی پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ 2018 کے دھرنے کو اداروں کی حمایت کے علاوہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی مالی امداد بھی حاصل تھی۔ اس کے باوجود یہ دھرنا ناکام رہا۔

لانگ مارچ کی کامیابی ان عناصر کی حمایت کے بغیر مشکوک رہے گی۔ موسم کی شدت اور نقل و حمل کا انتظام ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا جس کے لیے صرف جوش و جذبہ کافی نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا حامی عوامی گروپ جس میں درمیانے طبقے کی ایک نمایاں تعداد شامل ہے اس لمبے اور مشکل آزما سفر کی صعوبتیں سہنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ وہ کچھ دنوں کے لیے تو شاید اپنے جذبے کے اظہار کے لیے جمع ہوں گے مگر ایک میراتھن دوڑ میں ان کے لیے کافی مشکلات ہوں گی۔

پی ٹی آئی سے منسلک کچھ رہنما خونی مارچ کی بات کر رہے ہیں مگر وہ اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں ہیں کہ خونی مارچ کے بعد جمہوری قوتوں کے پلے کچھ نہیں رہے گا اور ملک کی ترقی کا سفر سالہاسال پیچھے چلا جائے گا۔ لوگوں کو اپنے آپ کو جلانے پر اکسانے کی مہم ایک خطرناک کھیل ہے جس سے ملک اور جمہوریت کو سخت نقصان پہنچے گا۔ یہی کام پیپلز پارٹی کے جیالوں نے بھی کیا مگر خود سوزیاں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے سے نہ بچا سکیں۔

2014 کے دھرنے کے انجام کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی اپنی طاقت اور جوش و جذبے کو آنے والے انتخابات کے لیے محفوظ رکھے اور موجودہ مخلوط حکومت کو اپنے ہی اندرونی اختلافات اور وزن کی بنیاد پر منتشر ہونے کا انتظار کرے۔

پی ٹی آئی کی حکومت ایک آئینی عمل کے بعد تحلیل ہوئی جسے سپریم کورٹ نے بھی درست جانا۔ یہ وہی سپریم کورٹ کے ججز ہیں جنہوں نے عمران خان کو صادق و امین قرار دیا تھا۔ اس لیے عمران خان کو اس آئینی عمل اور عدالتی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس مدت کو اپنی پارٹی کو منظم کرتے ہوئے اگلے الیکشن کی تیاری کرنی چاہیے۔

اس قدم سے پاکستان میں نہ صرف جمہوریت مضبوط ہو گی بلکہ پی ٹی آئی کو مضبوط بنیادوں پر بغیر ادارہ جاتی حمایت کے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments