پاکستانی ریاستی نظام کا نیا چیلنج


پاکستان کی ریاست اور معاشرہ کا ایک نیا ابھرتا چیلنج آزادی اظہار کے نام پر جاری وہ مہم ہے جو لوگوں کو تقسیم کرنے، اداروں کے خلاف منفی مہم پیدا کرنا، نفرت اور تعصب کی لہر، غصہ اور ردعمل کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا اپنی جگہ اب تو رسمی میڈیا سمیت سیاسی میدان یا علمی و فکری محاذ پر جو جنگ آزادی اظہار کے نام پر جاری ہے وہ ریاستی نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ تنقید اور تضحیک کے درمیان جو فرق ہوتا ہے اسے عملی طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے اور لوگ بلا خوف و جھجھک وہ سب کچھ لکھ اور بول رہے ہیں یا جو الفاظ استعمال ہو رہے ہیں اس سے نمٹنا ہی بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنا اور ایک دوسرے کے خیالات کے مقابلے میں مجموعی طور پر انتہا پسندی یا شدت پسندی کے بیانیہ کو اختیار کرنا ریاستی مفاد کے خلاف ہے۔

مجموعی طور پر ہم مکالمہ کے کلچر سے دو رہو گئے ہیں اور اس کی جگہ اپنی اپنی سوچ اور فکر کو جبر اور طاقت کی بنیاد پر ایک دوسرے پر مسلط کرنے کی روش نے ایک دوسرے کی قبولیت کو مشکل بنا دیا ہے۔ یہ سمجھنا کہ سچ وہی ہے جو میں سوچ رہا ہوں اور اسی سچ کو دوسروں کو بھی قبول کرنا ہے عملاً ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بحران فوری طور پر پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈال کر ہم اپنی اپنی جان چھڑا سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر معاشرے میں موجود تمام فریقین جن میں اہم فریقین بھی ہیں اس بحران کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ ہم نے وقتی طور پر اپنے مفاد کے حصول کے لیے سیاسی مخالفین یا اداروں کی مخالفت کی بنا پر ایک ایسے ایجنڈے کو تقویت دی ہے جو بلاوجہ معاشرے میں انتشار کو پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ جو ریاستی پالیسی تھی جس میں ایسے سنگین اور حساس معاملات پر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی بجائے جو سمجھوتوں یا اپنی پسند و ناپسندی کی بنیاد پر پالیسی کو لانا، چلانا یا اس کو پس پشت ڈالنا ہی ہمارا قومی جرم ہے۔ اس لیے جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہے اس میں ہم سب برابر کے ذمہ دار ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ جو معاشرے میں مجموعی طور پر انتہا پسندی یا شدت پسندی پر مبنی رجحانات کو طاقت ملی ہے اس کا مقابلہ اب نئی صورتحال میں کیسے کیا جائے۔ ایک علاج ہم نے ردعمل پر مبنی پالیسی کے طور پر تلاش کر لیا ہے۔ جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے یا کوئی ایسی مہم چلتی ہے جو عملی طور پر ریاستی نظام کے لیے خطرہ ہوتا ہے تو ہم جامع پالیسی کی بجائے یا ان معاملات کے محرکات کو سمجھنے کو بجائے محض روزانہ کی بنیاد پر ردعمل کی سیاست کی حکمت عملی کو اختیار کر کے آگے بڑھتے ہیں۔

ہمارے پاس اس انتہا پسندی اور شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے لانگ ٹرم، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی میں بہت سے تضادات ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم حالات کی اس سنگینی پر کافی رنجیدہ بھی ہیں اور پریشان بھی مگر اس سے کیسے نمٹنا ہے اس پر ٹھوس حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام کا فقدان ہے۔ عدلیہ، فوج یا دیگر اداروں پر تنقید کے نام تضحیک کا پہلو ہو یا سیاسی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی یا میڈیا کے محاذ پر تنقید اور تضحیک کے نام پر جاری کھیل ہو اس نے عملاً ہمارے ریاستی نظام کو سب کے سامنے تماشا بنا دیا ہے۔

یہاں ہر کوئی اداروں کی حمایت یا مخالفت کی بنیاد پر اپنا بیانیہ تشکیل دیتا ہے۔ ان میں افراد انفرادی سطح پر بھی ہیں اور ادارہ جاتی سطح پر بھی سب ہی اپنے اپنے بیانیہ کی جنگ میں سرگرم ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مخالف نقطہ نظر یا مخالف سوچ کے فرد کے لیے اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ ریاستی یا معاشرتی نظام کا مفاد بھی عزیز نہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار محض عام افراد یا عوام نہیں بلکہ وہ خواص ہیں جو عملی طور پر رائے عامہ بنانے کے عمل کا حصہ ہیں۔

کیونکہ یہاں اوپر کی قیادت نے اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لیے لوگوں کو تقسیم بھی کیا اور ان میں سیاسی، مذہبی یا لسانی بنیادوں پر نفرت کا ماحول بھی پیدا کیا۔ سیاسی نظام میں موجود محاذ آرائی پر مبنی سیاست کے بالادست ایجنڈے نے قومی سیاست کو ایک منفی سیاست کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کھیل میں ”مخالفانہ سیاست“ کا ہی بیانیہ کو بالادستی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس قومی منفی سیاسی ایجنڈے نے پورے رائے عامہ کے افراد یا اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاست جب ایشوز سے نکل کر نان ایشوز یا غیر سنجیدہ مسائل یا محاذ آرائی کی بنیاد پر ہوگی تو اس کا عملی نتیجہ ایک دوسرے کی عدم قبولیت کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کو طاقت دیتا ہے جو لوگوں میں نفرت کی سیاست کو مضبوط بناتا ہے۔

یہ جو ہم آج کل ملک میں ایک گہری سیاسی تقسیم جس میں ایک دوسرے کی عدم قبولیت اور نفرت کی سیاست دیکھ رہے ہیں اسے کیسے ٹھنڈا کیا جائے۔ کیونکہ اس سیاسی مہم جوئی یا سیاسی تقسیم نے لوگوں کو اپنے اپنے منفی ایجنڈے میں بانٹ دیا ہے اور ہم چاروں اطراف محاذ آرائی پر مبنی کھیل میں شدت پیدا کر کے سیاست اور جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے نوجوانوں کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کی نئی طاقت تو دے دی ہے مگر اب یہ ہی طاقت ریاستی نظام کو چیلنج بھی کر رہی ہے۔

آج کا نوجوان ماضی کے نوجوان سے مختلف ہے اور اس میں سیاسی و سماجی شعور بھی ہے اور وہ حالات کو چیلنج کرنے کا ہنر اور طاقت بھی رکھتے ہیں۔ حالات و واقعات میں جو پس پردہ کھیل ہے وہ بھی اب ان سے کوئی زیادہ چھپا نہیں رہا اور یہ ہی وجہ ہے کہ ان میں پس پردہ جاری کھیل یا سازشی امور پر بھی سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔ وہ یہ ردعمل عملاً دے بھی رہے ہیں اور کہیں وہ اس ردعمل میں سرخ لائن کو عبور بھی کر جاتے ہیں۔

معاشرے یا سیاسی محاذ پر موجود سیاسی تقسیم کو کم کرنے میں ایک بڑا سیاسی ہتھیار مکالمہ ہوتا ہے۔ اسی مکالمہ کی بنیاد پر یا مفاہمت کو بنیاد بنا کر ہم اپنے سیاسی مسائل کو سیاسی اور جمہوری انداز میں حل کر سکتے ہیں۔ لیکن سیاست کے نام پر جو طوفان بدتمیزی یہاں رواج پا چکی ہے اس کا ہم کو ایک بڑا اور مربوط علاج تلاش کرنا ہو گا۔ یہ علاج محض قانون سازی، پالیسی سازی یا ڈنڈے کی بنیاد پر نہیں چل سکے گا بلکہ اس کا ایک بڑا اور موثر علاج قومی بیانیہ کی تشکیل کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنا ہو گا اور ان کو باور کروانا ہو گا کہ ان کا جارحانہ یا منفی طرز عمل ریاست، ملک اور معاشرے کے مفاد میں نہیں۔ یہ ماننا ہو گا کہ ہمارا مجموعی تعلیم اور میڈیا کا نصاب یا نظام شدت پسندی کو پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ بالخصوص نوجوان نسل کو ایک مثبت ایجنڈے کے ساتھ جوڑنا اور ان میں نفرت یا تعصب سمیت ردعمل کی سیاست سے باہر نکالنا ہی بڑا چیلنج ہے۔

لیکن اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمیں جن ٹھوس بنیادوں پر کام کرنا ہے اس کا فقدان خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ جب ہماری قومی یا ریاستی سطح کی ترجیحات میں کافی مسائل ہوں تو بحران سے نمٹنا اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس پالیسی یا قانون سازی کا فقدان ہے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کا بڑا مسئلہ عملدرآمد کے نظام کی عدم شفافیت پر مبنی نظام ہے۔ ریاست اور حکومت سمیت اداروں کو سمجھنا ہو گا کہ جو کچھ آج سیاسی و مذہبی تقسیم کی بنیاد پر معاشرے یا اداروں کو درپیش ہے اس کا علاج ان کو اپنی حکمرانی کے بحران میں بھی تلاش کرنی چاہیے۔

کیونکہ ہمارا مجموعی طور پر حکمرانی کا نظام ہی لوگوں میں سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی استحصال کا سبب بن رہا ہے اور ایسے میں یہ سمجھنا کہ لوگوں میں ردعمل کی سیاست جنم نہیں لے گی درست سوچ نہیں۔ لوگوں کو اگر ہم نے کسی مثبت سوچ اور فکر کے ساتھ جوڑنا ہے تو ہمیں اپنی حکمرانی کے نظام شفافیت کو بنیادی ترجیح دینی ہوگی اور اسی بنیاد پر لوگوں کو قومی ریاستی بیانیہ کے ساتھ جوڑا جا سکے گا۔ ہمیں اس وقت ریاستی نظام کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے روایتی اور فرسودہ طور طریقوں سے باہر نکل کر جدیدیت کے طور طریقوں اور دنیا کے عملی تجربات سے سیکھ کر اور اپنے معاشرے کا حقیقی تجزیہ کر کے درست حکمت عملی اور ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ یہ ہی ہمارے ریاستی مفاد کا حصہ ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments