تاثر مضبوط ہوتا ہے یا حقیقت؟


تاثر پروپیگنڈے سے بنتا ہے، جس کا پروپیگنڈا جس قدر منظم، مسلسل اور تکنیکی لحاظ سے کامل ہو گا، اس فرد یا ادارے کے بارے میں لوگوں کی رائے اتنی اچھی (یا بری) ہوگی۔

تاثر اکثر اس وقت زائل ہوتا ہے جب کوئی دوسرا پروپیگنڈا پہلے کی جگہ لے لیتا ہے۔

ایک شخص خود اپنے بارے میں جو تاثر رکھتا ہے وہ کچھ زیادہ ہی مثبت ہوتا ہے حالاں کہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ خلق خدا اس کے بارے میں غائبانہ کیا رائے رکھتی ہے۔

پشتو کا ایک محاورہ ہے کہ ”جب تک سچ پہنچتا
ہے، جھوٹ نے شہر کے شہر برباد کیے ہوتے ہیں ”

ایک وقت تھا جب امریکی اور پاکستانی میڈیا کے پروپیگنڈے سے یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ افغانستان میں حق اور باطل کی لڑائی جاری ہے، اہل روس کے بارے میں ایسی ایسی افواہیں پھیلائی گئیں جو ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہوتی ہوں گی۔

ایک بات جو بچپن سے اب تک میرے حافظے کے ساتھ چپکی ہوئی ہے وہ یہ کہ اس وقت کی روسی حکومت اپنے ملک کی عورتوں کو افغانستان بھجوایا کرتی تھی تاکہ ان کی افغان مردوں سے ملاپ کروا کر ایک بہادر اور غیرت مند قوم پیدا کی جائے۔

اس طرح کی باتوں سے ہمارے ذہنوں میں زہر انڈیل کر یہ تاثر پختہ کیا گیا کہ افغان بہت بہادر ہوتے ہیں، وہ خالص اللہ کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔

یوں دو عالمی طاقتوں کی کشمکش کو کفر اور اسلام کی جنگ قرار دیا گیا۔

اس وقت یہ سوال اہم نہیں تھا (بہت سے لوگوں کے لیے آج بھی اہم نہیں ہے ) کہ اس جہاد کے لیے ٹریننگ، ڈالر اور اور باقی وسائل ”پارسا“ امریکی حکومت نے فراہم کیے تھے۔

چرچ کے راہب اور مدرسے کے استاد کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہوتا ہے کہ یہ لوگ نیک لوگ ہوتے ہیں۔

آپ ایک ”پہنچے ہوئے بزرگ“ کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، آپ ان کی کرامات کا تذکرہ اکثر اپنے پیٹی بند مرید بھائیوں سے سنتے رہتے ہیں اور جوش میں جھومتے رہتے ہیں، آپ کے دل میں ان کے لیے بڑی عقیدت ہے، ان کی بزرگی کا آپ کا تاثر اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ ان کی چھوٹی موٹی لغزش کو آپ ”وجد“ یا ”حال“ کا نام دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔

پھر ایک دن کوئی ناراض شاگرد، کوئی ہم راز مرید اور کوئی بے باک صحافی ان راہبوں، پیروں اور فقیہان شہر کی کوئی خفیہ ریکارڈنگ لیک کر دیتا ہے، آپ (تمام معتقدین) یقین نہیں کر پاتے، خود کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں مگر کب تک؟ تب تک جب تک کوئی دوسرا شخص مسلسل چوٹوں سے آپ کے اس تاثر کو زائل نہ کردے۔

یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی قوم یا ملک خالص اور ننگے حقائق جان کر یک جا نہیں رہ سکتا اسی لیے ہر ملک کے تعلیمی نصاب میں سوچ سمجھ کر تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے۔ آپ نصابی کتب کے علاوہ بھی تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا لیں، اس میں آپ کو تاریخ کم اور تبلیغ زیادہ نظر آئے گی۔

امریکی بچوں کو اسکولوں میں نہیں پڑھایا جاتا کہ گوروں نے کالوں کو صدیوں غلام بنائے رکھا اور ان پر ظلم کرتے رہے اور نہ مسلمان بچوں کو کسی نے پڑھایا کہ غلام اور لونڈی کا رواج ختم کیے ہوئے ہمیں بہ مشکل ایک صدی بھی نہیں گزری۔ کیوں نہیں بتایا، کیوں نہ پڑھایا؟ اس لیے کہ پھر یہ تاثر کیسے قائم رہے گا کہ ہم ہی ہیں وہ جو سب سے بہتر ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرتا تھا مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس نے بھائی کو قتل بھی کروایا اور باپ کو جیل میں بھی ڈلوایا، کیوں؟ کیوں کہ پھر یہ تاثر ختم ہو جائے گا کہ مسلمان بادشاہ بڑے رحم دل اور ایمان دار ہوا کرتے تھے۔

ہٹلر اور مسولینی نے اپنی اقوام کو ایک موثر پروپیگنڈے کے ذریعے یہ باور کروایا تھا کہ وہی ان کے ملجا و ماویٰ ہیں۔ کروڑوں لوگ ان کی بات مانتے تھے اور ان پر اپنی جانیں نچھاور کرتے تھے۔

ہمارے ذہنوں میں بچپن ہی سے بٹھایا جاتا ہے کہ عورت ناقص العقل ہے، وہ اس قابل نہیں کہ اس سے مشورہ کیا جائے یا اسے کسی اعلیٰ عہدے پر بٹھایا جائے، مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ جرمنی پر سولہ سال تک بہترین انداز میں حکمرانی کرنے والی انگلا مرکل، نیوزی لینڈ کی جسنڈا آرڈن اور پاکستان کی بے نظیر بھٹو نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا تو ہم اس خول سے نکلنے کی بجائے چوں کہ چناں چہ کرتے رہتے ہیں۔

عشروں تک سیاست میں ناکام رہنے والوں کو جب طاقت ور حلقوں کا ساتھ نصیب ہوا اور انھوں نے بھیڑیوں کے جسموں پر ہرنیوں کی کھالیں ڈالنا شروع کیں، میڈیا کے شہ زور گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا کر صدیوں کا سفر سالوں میں طے کروایا گیا، عوام کو سمجھایا گیا کہ یہی وہ مسیحا ہیں جو قوم کے مردہ ضمیر میں نئی روح پھونکیں گے۔ لوگوں کی بڑی اکثریت نے اب ان پر یقین کرنا شروع کیا۔ عوام پر یہ حقیقت پہلے روز سے کیوں منکشف نہ ہوئی، جب کہ وہ ان کے درمیان برسوں سے موجود تھے، سیاست کر رہے تھے، چیخ چیخ کر اپنی سچائی کا یقین دلا رہے تھے، ووٹ مانگ رہے تھے۔

عوام کا ان لیڈروں کے بارے میں مسیحائی کا تاثر اتنا مضبوط کیا گیا کہ لوگ ان کے دیوانے ہونے لگے، ان کے نام پر لوگوں کی جانیں لینے لگے، اپنی جان دینے لگے۔

ہم اس لکھاری کو پڑھتے ہیں جس کے بارے میں ہمارا تاثر ہو کہ وہ سچ لکھ رہا ہے (سچ بھی وہ جسے ہم سچ سمجھتے ہوں ) اور اس شخص کو پڑھے بغیر ہی لفافہ اور بکاوٴ صحافی سمجھتے ہیں جس کے بارے میں ہمارا منفی تاثر قائم کیا گیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments