حکومت کے بڑے چیلنجز


عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کے بعد مسلم لیگ نون اور ان کے اتحادیوں کی بننے والی نئی حکومت کو ابتدا ہی میں کئی محاذ پر سیاسی اور معاشی سطح پر مختلف سنگین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ نون جو بڑے جذباتی انداز میں عمران خان حکومت پر تنقید کرتے تھے اور یہ دعوی کرتے تھے کہ ان کے پاس ہی مسائل کے حل کا علاج موجود ہے، وہ ابتدا ہی میں ناکامی سے دوچار نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ نون جو عمران خان حکومت کے خاتمہ سے قبل حکومت کی معاشی محاذ پر ناکامی کے بعد کافی پاپولر تھی اور بہت سے سیاسی پنڈتوں کے بقول نئے انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ نون ہی اقتدار کی سیاست کا حصہ بنے گی۔ مگر یہ جو اچانک مسلم لیگ نون کو حکومت ملی یا جس نے بھی حکومت کی تبدیلی کا اسکرپٹ لکھا اس نے مسلم لیگ نون کو ایک بڑی سیاسی مشکل میں ڈال دیا ہے۔

مسلم لیگ نون کی نئی حکومت کو اس وقت پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول وہ اپنی باقی مدت میں کس طرح سے ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کریں جو ملک کو جہاں معاشی استحکام دے وہیں وہ لوگوں کو ایک ایسا معاشی ریلیف دے جو ان کی سیاسی حکومت کی ساکھ کو مثبت طور پر پیش کرسکے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے حکومت تو لے لی لیکن شاید ملک کی معاشی صورتحال کا بہتر ادراک نہیں کر سکی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی شارٹ ٹرم پلان موجود ہے۔

دوئم عمران خان کی مزاحمتی تحریک اور فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کا مقابلہ سیاسی انداز میں کیسے نمٹا جائے اور جو بیانیہ اس وقت عمران خان نے سیاسی میدان میں اختیار کیا ہوا ہے اس کے مقابلے میں حکومت کا متبادل بیانیہ کیا ہونا چاہیے سوئم یہ جو اس وقت مسلم لیگ نون پر معاشیات سمیت سیاسی مسائل کا بوجھ ہے اس کا بوجھ ان کے اتحادی بشمول پیپلز پارٹی اٹھانے میں ان کی کیسے مدد کر سکتی ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر اتحادی جماعتوں کی سیاست کا تجزیہ ہی ہے کہ یہ لوگ حکومت کے اتحادی ہوتے ہیں اور مختلف اہم عہدوں یا وزارتوں کی بند بانٹ میں شامل ہوتے ہیں مگر حکومتی مشکلات یا ناکامی میں ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔

چہارم اس وقت جو ملک میں خطرناک حد تک سیاسی تقسیم بن چکی ہے اس میں وہ خود کیسے محفوظ بنا سکتی ہے اور اگلے انتخابات کی صورت میں اس کی سیاسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور کیا وہ اتحادیوں کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے گی یا تن تنہا سیاسی میدان میں مقابلہ کرے گی۔ پنجم اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ تعلقات کار میں حکومت اور بالخصوص مسلم لیگ نون کہاں کھڑی ہوگی اور کیا جو مسائل اس وقت سیاسی تقسیم اور اداروں کے ساتھ نون لیگ کے موجود ہیں ان میں بڑی بہتری دیکھنے کو مل سکے گی۔ بالخصوص نواز شریف اور مریم نواز کا کیا کردار ہو گا اور کیا وہ واقعی انتخابی سیاست میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی سیاسی برتری کو آسانی سے تسلیم کر لیں گے۔

مسلم لیگ نون میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اور فوری انتخابات کا راستہ یا عمران خان کا عالمی دنیا کا سازشی بیانیہ اور اس میں پاکستانی کرداروں کا گٹھ جوڑ ان کے مفاد میں نہیں۔ ان کے بقول عمران خان کی حکومت کو وقت سے پہلے گرانے کی ہماری حکمت عملی پارٹی مفاد میں نہیں تھی اور ہم بلاوجہ اسٹیبلیشمنٹ سمیت پیپلز پارٹی یا آصف زرداری کی سیاست کا حصہ بنے جو کسی بھی طور پر ہمارے مفاد میں نہیں۔

یہ گروہ سمجھتا ہے کہ مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سیاسی طور پر ٹریپ ہوئی ہے اور آصف زرداری کا سیاسی نشانہ بھی مسلم لیگ نون ہی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ نون میں ایک بڑی تقسیم فوری انتخابات یا حکومت کو اپنی مدت پوری کر کے انتخابات پر ہے اور ہر فریق اس پر اپنا اپنا موقف رکھتا ہے۔ یہ جو لندن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا ہے اس کے پیچھے بھی یہ ہی سیاسی تقسیم ہے۔ لندن اجلاس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مسلم لیگ نون میں اصل فیصلے کی طاقت شہباز شریف کے مقابلے میں نواز شریف کے پاس ہی ہے اور تمام فیصلوں کا ویٹو پاور بھی نواز شریف ہی کے ہاتھ میں ہے۔

نواز شریف کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ حالیہ تبدیلی میں ان کا اور ان کی بیٹی مریم نواز کا کردار محدود جبکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا کردار بڑھا ہے۔ اسی طرح معاشی معاملات میں بھی اگرچہ معاملات مفتاع اسماعیل کے پاس ہے مگر ان کو گلہ ہے کہ ان کی حیثیت ڈمی ہے اور سارے اختیارات یا فیصلوں کا اختیار ان کی بجائے اسحاق ڈار کے پاس ہے۔

مسلم لیگ نون کا بڑا سیاسی محاذ پنجاب کی سیاست ہے۔ کیونکہ اسی محاذ پر مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے درمیان اصل پانی پت کی جنگ ہے اور دونوں یہ بڑی سیاسی قوتوں کا اصل مرکز ہی پنجاب سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے حالیہ حکومت میں مسلم لیگ نون کو جہاں معاشی طور پر ڈلیور کرنا ہے وہیں اپنی پارٹی کی پنجاب کی انتخابی پوزیشن کو بھی مستحکم رکھنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی یا حمزہ شہباز کی حکومت بھی مشکل میں ہے کیونکہ یہ حکومت عملی طور پر پی ٹی آئی کے باغی ارکان پر کھڑی ہے۔

اگر ان باغی لوگوں کے خلاف کوئی قانونی فیصلہ آتا ہے تو یہ مسلم لیگ نون کی حکومت کو ایک بڑا سیاسی دھچکہ دے گا۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کی حکومت عملی طور پر پیپلز پارٹی کے سہارے پر کھڑی ہے اور پیپلز پارٹی کوشش کرے گی کہ اس حکومت میں وہ اپنے فیصلے زیادہ طاقت سے حاصل کرسکے اور ان معاملات میں آصف زرداری کی سیاسی مہارت مسلم لیگ نون کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے کہ اس وقت مسلم لیگ نون کیونکہ مشکل صورتحال میں ہے تو وہ ان پر بڑا سیاسی دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلوں کو آگے بڑھا سکتی ہے۔

مسلم لیگ نون اور ان کی اتحادی جماعتوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج عمران خان کا سیاسی بیانیہ ہے۔ یہ بیانیہ درست ہے یا غلط یا انہوں نے اس کو سیاسی طور پر استعمال کیا ہے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ان کا بیانیہ فی الحال مقبول ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حالیہ مقبولیت کو کس طرح کم کیا جا سکے اور یہ لمبے عرصہ تک برقرار نہ رہے تو دوسری طرف عمران خان کے مقابلے میں ان کا سیاسی بیانیہ کیا ہو گا کیونکہ اسی بیانیہ کی بنیاد پر ہی وہ عمران خان کو دباؤ میں لا سکتے ہیں۔

لیکن فی الحال مسلم لیگ نون اور ان کے اتحادیوں کو عمران خان کے مقابلے میں بیانیہ کی تلاش میں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو گا اور کب ممکن ہو گا اور کیسے عوامی مقبولیت حاصل کرے گا، اہم سوال ہے۔ ایک بات اور سمجھنے کو مل رہی ہے کہ عملی طور پر پیپلز پارٹی فوری انتخابات کی حامی نہیں۔ آصف علی زرداری کی حالیہ پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ ضرور انتخابات کے حق میں ہیں مگر یہ انتخابات انتخابی اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں۔

یعنی آصف زرداری انتخابی اصلاحات کو بنیاد بنا کر انتخابات کے مزید وقت چاہتے ہیں۔ مگر جو دباؤ عمران خان کا ہے اور جو آوازیں مسلم لیگ نون کے اندر سے فوری انتخابات کے حق میں اٹھ رہی ہیں اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے اور خود اسٹیبلیشمنٹ جو کئی محاذ پر مشکل صورتحال سے دوچار ہے کیسے بغیر فوری انتخاب کے نکل سکے گی۔ انتخابی اصلاحات میں ایک اہم مسئلہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سمیت دیگر حکومتی جماعتیں اس حق کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کو ایک بڑا سیاسی دھچکہ دیگر ممالک میں موجود پاکستانیوں کی مزاحمت کی صورت میں ملے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت میں شامل مسلم لیگ نون سمیت پیپلز پارٹی اسٹیبلیشمنٹ کے بارے میں نرم رویہ رکھتی ہیں اور ان کے بقول اب اسٹیبلیشمنٹ غیرسیاسی ہو گئی ہے۔ لیکن دیکھنا ہو گا کہ یہ موقف ان جماعتوں کا کب تک باقی رہتا ہے۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں مریم نواز کے بعض بیانات نے بھی اسٹیبلیشمنٹ کے حلقوں میں تشویش پیدا کی اور اس سے قبل خود عمران خان کے بہت سے بیانات نے بھی عملی طور پر اسٹیبلیشمنٹ کے لیے مسائل پیدا کیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو کہنا پڑا کہ سیاسی فریقین اپنی سیاست میں فوج کو بلاوجہ سیاست میں یا اپنے سیاسی مفادات کی حمایت اور مخالفت میں استعمال نہ کریں۔ لیکن اس کے باوجود جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے وہ خود عملاً اداروں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments