اپنی ناکامی کا علانیہ اعتراف


خواتین و حضرات! تھوڑا سا عار محسوس کرتے ہوئے آج ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم (تحریر میں جہاں جہاں ’ہم‘ ہے اسے ’میں‘ پڑھا جائے ) ایک ناکام آدمی ہیں۔ اب ہم پر واضح ہو چکا کہ ہم کسی بھی شعبہ زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ سچ پوچھیں واضح تو کافی عرصہ پہلے ہو چکا تھا مگر مارے شرمندگی کے کبھی اعتراف نہ کر سکے۔ مگر اب اخفائے راز کا احساس ندامت شرمندگی پر حاوی ہو چکا ہے۔

یادش بخیر، لگ بھگ دو دہائیاں قبل ہم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے یا دوسرے لفظوں میں بھولا کینٹین کے مالک اور ویٹرز کو روتا دھوتا چھوڑ کر نکلے (مالک اپنے بقایا جات کے لیے روئے اور ویٹرز کھانے کے بل میں دو ڈشز کم کرنے کے عوض ملنے والی ”معقول“ ٹپ کے کھونے پر) تو سوچا اب کچھ پڑھنا چاہیے۔ آخر اپنا اور اپنے آنے والے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بہرحال کسی نوکری کی ضرورت ہوتی ہے۔

اتفاق سے انہیں دنوں ہماری ملاقات ایک سستے قسم کے نووارد موٹیویشنل سپیکر سے ہو گئی۔ یہ ملاقات باہمی دلچسپی، بلکہ یوں کہیے کہ باہمی مفاد کی بنیاد پر ہوئی۔ نووارد سپیکر کو تختہ مشق بنانے کے لیے کوئی سامع چاہیے تھا اور ہمیں کوئی شخص جو ہماری چھپی ہوئی صلاحیتیں ہم پر آشکار کر سکے۔ لہٰذا دو دیوانوں کے ملنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لیے نکل پڑے۔ اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ رہنمائی کے لیے ہمیں سینئرز کی ضرورت تھی۔

پتہ برداری پر معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے قریب گھوڑے شاہ دربار کے پاس اپنی ہی یونیورسٹی کے کچھ سابقہ طالب علم امتحان کی تیاری کے لیے قیام پذیر ہیں۔ شام کو ہم ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ یہ دو کمروں کا چھوٹا سا مکان تھا۔ اور کمروں کے آگے چھوٹا سا صحن۔ جونہی ہم مرکزی دروازے سے مکان میں داخل ہوئے ہماری نظر صحن میں کھڑے ایک شخص پر پڑی جو تولیہ لپیٹے اپنا ستر ڈھانپنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ ایک شخص صحن میں کرسی نما چیز پر بیٹھا اخبار میں ضرورت رشتہ کے اشتہار دیکھ رہا تھا۔

ہماری آمد کی اطلاع پا کر سب کمرے میں جمع ہو گئے۔ یہ کل ملا کے دس لڑکے تھے جو دو کمروں میں رہائش پذیر تھے اور سونے کے وقت ٹارچ کے خشک سیلوں کی ترتیب پر پورے ہو سکتے تھے۔ (یعنی ایک کی ٹانگیں دوسرے کے منہ پر ) تقریباً آدھوں کے آدھے بال اڑ چکے تھے اور باقی آدھوں کے آدھے بال سفید۔ ایسا لگا کہ شاید کچھ تو سی ایس ایس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ہم نے بیٹھے بیٹھے حساب لگایا کہ اگر یہ وقت سے شادی کر لیتے تو آج ان کے بچے اسی امتحان کی تیاری کر رہے ہوتے۔

خیر ہم نے اپنا مدعا بیان کیا جس پر کچھ نے ہمیں ایسے گھورا جیسے کہہ رہے ہوں ”نواں آیا ایں سوھنیاں“ اس کے بعد سب نے تفصیل سے ہمارے خد و خال کا جائزہ لیا۔ بلکہ یوں سمجھ لیں ٹھونک بجا کے ہمیں چیک کیا اور فیصلہ دیا کہ ہم یہ امتحان پاس نہیں کر سکتے۔ یہاں سے مایوس ہو کر ہم ایک ایسے دوست کے پاس پہنچے جس کے بڑے بھائی نے حال ہی میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ آنے کا مقصد بتایا۔ دوست نے چھوٹتے ہی کہا شکل دیکھی ہے اپنی؟

بات تو شاید درست تھی مگر یہ ”اعتراف جرم“ کا موقع نہ تھا۔ فیصلہ سنایا ہم یہ امتحان پاس نہیں کر سکتے۔ اپنے بھائی کے اوصاف حمیدہ گنوائے اور ہمارے اوصاف کبیدہ۔ کہتے آپ کا سی ایس ایس والا انداز ہی نہیں ہے۔ بھائی جب پانی پیتے تو پہلے گلاس بھر کر میز پر رکھ دیتے۔ پھر اٹھا کر بغور اس کو دیکھتے، پھر چند گھونٹ پی کر رکھ دیتے۔ اس طرح وہ گلاس ختم کرتے۔ تم ایک ہی سانس میں پورا گلاس غڑپ کرلیتے ہو۔ بھائی سارا دن ٹریک سوٹ میں پھرتے ہیں اور تمھارا اوڑھنا بچھونا شلوار قمیض ہے۔

بھائی ڈنر رات کو دو بجے کرتے ہیں اور تم مغرب کی اذان کے ساتھ ہی۔ غرض پانی پینے سے لے کر نہانے دھونے تک ہمارا کوئی کام ڈھنگ کا نہ نکلا۔ لہٰذا امتحان کی تیاری کے لیے نا اہل قرار پائے۔ آخر میں کہتے! دیکھو پچھلے دنوں بھائی اسلام آباد گئے اور راستے میں کوئی ڈھنگ کا واش روم نہ ملا تو سیدھے اسلام آباد کلب گئے اور وہاں واش روم استعمال کیا۔ معیار بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ حضرات یہ آخری کیل تھا جو ہماری نا اہلی کے تابوت میں ٹھونکا گیا کیونکہ قضائے حاجت پر اتنا ضبط اور کنٹرول ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔

آخر مایوس ہو کر کھیتی باڑی کا فیصلہ کیا اور گاؤں پہنچ کر گھر والوں کو اپنا فیصلہ سنایا۔ پھر وہی جملہ سننے کو ملا کہ کھیتی باڑی کرنے والے تم جیسے نہیں ہوتے۔ خیر ضد کر کے ہم نے یہ شعبہ منتخب کر لیا۔ پھر اتفاق سے ہم سے ایک احمقانہ بلکہ مسخرانہ حرکت سرزد ہو گئی۔ اب آپ سے کیا پردہ بتا ہی دیتے ہیں۔ ایک دن گھر والوں نے کہا کہ جانوروں کی حویلی میں کھلا ہوا کٹا باندھ دیں۔ چونکہ اس وقت ہم attention to details کے بارے تھوڑا لا پروا تھے۔

لہٰذا ہم نے کٹے کی بجائے کٹی باندھ دی۔ وہ ایک کٹا کیا کھلا رہ گیا کہ آج تک روز ایک نیا کٹا کھلتا آ رہا ہے۔ یوں کھیتی باڑی کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔ پھر ایک دن اچانک ہم نے فیصلہ سنایا کہ ہم پولیس افسر بنیں گے۔ ہمارے ایک بزرگ نے کہا برخوردار، پولیس افسر ایسے نہیں ہوتے۔ کہنے لگے کافی عرصہ پہلے گاؤں میں ایک تھانیدار آیا تھا۔ بڑی مونچھیں اور بڑھا ہوا پیٹ۔ کیا رعب تھا۔ گاؤں والے سب کھیتوں میں چھپ گئے۔

تھانیدار نے سب سے پہلے رکھے ہوئے ایک پانی کے مٹکے کو ٹھوکر مار کر توڑا پھر دو چارپائیاں الٹ دیں۔ کہتے ایک دفعہ میں مقامی تھانہ میں بوٹا تھانیدار کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ گاؤں کا ایک بزرگ اسے ملنے آیا۔ بوٹا صاحب اٹھ کر ملے اور کام بھی کر دیا۔ کم بخت نے رات کو گاؤں میں بتایا کہ تھانیدار تو بالکل فارغ ہے، مجھے بھی اٹھ کر ملا۔ اس کے بعد بوٹا نے خوش اخلاقی سے توبہ کر لی۔ ہم نے فیصلہ کیا گھڑے توڑنے اور چارپائیاں الٹانے کا کام ہم سے نہیں ہو سکے گا۔

حال ہی میں ہم پر منکشف ہوا کہ ہم ایک کامیاب ادیب بن سکتے ہیں لہٰذا ہم نے رہنمائی کے لیے ایک سستے قسم کے ادیب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمارے خدو خال کا بغور جائزہ لیا۔ اور کچھ سوالات ہمارے سامنے رکھے۔ خد و خال کے جائزے اور سوالات کے جوابات کی روشنی میں انھوں نے فیصلہ سنایا کہ ہم ادیب نہیں بن سکتے۔ ہمیں مایوس دیکھ کر کہنے لگے دیکھو برخوردار پیتے پلاتے تم نہیں۔ دن میں سگریٹ کی چار ڈبیاں تم ختم نہیں کر سکتے۔ عینک بھی نہیں لگاتے ہو اور گنجے بھی نہیں ہو۔ ساری رات چائے خانوں میں تم نہیں گزار سکتے ہو۔ لہٰذا اپنا وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کوئی اور کام کر لو۔

الغرض ہم نے مولوی بننے سے لے کر سیاستدان بننے تک ہر شعبے میں گھسنے کی کوشش کی مگر کسی بھی شعبہ کی مطلوبہ شرائط پر پورا نہ اتر سکے۔ یقین جانئیے اب ہم تھک چکے اور آج ہم خود مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ ہم ایک ناکام آدمی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments