اسلام اور معاشرتی تقسیم


۔

اگرچہ یہ ملک اسلام کے نام پہ بنا لیکن باوجود ستر سال ہونے کے کے یہاں اسلام صرف نام کا ہی رہا۔ عنان حکومت ہمیشہ سے ہی مقتدر قوتوں کے پاس رہی جو وقتاً فوقتاً اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہتے تھے۔ ان پچھتر سالوں میں اس اسلامی ملک میں اسلام ہی تختہ مشق رہا سوائے اسلام کے سب کچھ ہوتا رہا۔ حکومتیں واضح طور پہ سیکولر اور دین بیزار اقتدار میں آئیں لیکن انھوں نے گاہے بگاہے اسلام کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کیا۔

چونکہ پاکستان کی اکثر آبادی اسلامی رجحانات کی حامل ہے تو وہ اپنی سیاسی تقاریر میں اسلام کو بطور سیاسی چال کے استعمال کرتے اور اقتدار میں آتے ہی اسلام کا نام استعمال کرنا اپنے لیے معیوب سمجھتے اور ایسے ایسے قوانین بناتے کہ اسلام پہ عمل کرنا مشکل ہو جاتا۔ وہ پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کو ایسے سبز باغ دکھاتے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ان کے دام صیاد میں چلے آتے اور جب کچھ غلط ہو جاتا تو کمال ڈھٹائی سے سارا الزام مذہبی حلقوں پہ لگا لیتے اور ستم ہائے ستم کہ عوام ان کے باتوں پہ آنکھیں بند کر کے عمل کر لیتی چاہے وہ ضیا کا اسلامائزیشن ہو، نواز شریف کا آئی جے آئی یا پھر عمران خان کا ریاست مدینہ۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے آج تک چلا آ رہا ہے اور اگر ہم نا سنبھلے تو بہت آگے تک چلا جائے گا۔

پاکستانی بہت ہی زیادہ جوشیلے اور جذباتی لوگ ہیں۔ یہاں کوئی بھی بندہ سر بازار اسلام کا نام لے کر پاکستانیوں سے غیر اسلامی حرکت کروا سکتا ہے۔ کچھ ہی مہینے پہلے جو سری لنکا کے ایک مینیجر کے ساتھ پنجاب میں ہوا یہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ توہین رسالت کے قانون کو سب سے بڑا خطرہ نہ امریکہ ہے اور نہ ہی یورپ، یہی لوگ اس قانون کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ انھیں واقعات کی بنا پر اصلی مجرم چھوٹ جاتے ہیں اور لوگوں کو ان عظیم قانون پہ باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔

یہاں ہر بندہ اپنی مرضی کا اسلام چاہتا ہے اور اپنے آئیڈیل کو اسی میں فٹ مانتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک پوری ایسی نسل تیار ہو چکی ہے جو صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط اس وقت مانتے ہیں جب ان کو ان کا لیڈر کہتا ہے۔ معاشرے میں سیاسی عدم استحکام اور تقسیم اپنے عروج پہ پہنچ چکی ہے اور زیادہ تر یہ تقسیم اسلام کا نام لے کر کی جا رہی ہے۔ ایک ہی گھر میں بھائی بھائی سے اور باپ بیٹے سے صرف اس وجہ سے ناراض ہے کہ وہ مخالف پارٹی کا ہے اور ستم ہائے ستم کہ اس سارے معاملے میں بھی اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ان لوگوں کے لیے اسلام بھی وہی قبول ہے جو ان کے بڑوں کے بارے میں صحیح کہے۔ ایک لفظ تنقید برداشت کرنے کی سکت ان میں نہیں۔ اور یہ لوگ بے دریغ اسلام تعلیمات کو ان کی اصلی روح سے ہٹا کر پیش کرنے اور ان پہ عمل کروانے کی سعی کرتے ہیں اور جو لوگ ان کی بات نہیں مانتے ان کے لیے غداری اور کفر کے فتوے تیار کیے ہوئے ہیں۔

مختصر یہ کہ یہ طبقہ معاشرے کو تقسیم کی بلندی پہ لے گیا ہے جہاں سے واپسی شاید ہی ممکن ہو۔ اگر اس کے سامنے بروقت بندھ نا باندھا گیا تو عین ممکن ہے کہ یہ معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا اور ہم اس نہج پہ پہنچ جائیں گے کہ کوئی بھی اختلاف رائے کو برداشت نہ کرسکے اور عدم برداشت معاشرے میں رچ بس جائے گا۔

اگر ہم نے اسلام کو اس کے حقیقی وارثوں سے نا سیکھا اور ہر ایرے غیرے سے اسلامی تعلیمات کی تشریح کراتے رہے اور اس پر عمل کرتے رہے تو عین ممکن ہے کہ کچھ سالوں میں ایک نئے فرقے کا وجود ہو جس کا قبلہ اور کعبہ وہی لوگ ہوں جو ان کے چہیتے ہیں اور اسلام وہی پسند ہو جو ان کے مطابق ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments