بھٹو کا جیالا اتنا ’جاہل‘ کیوں ہے؟


کچھ غیر جمہوری اور غیر منطقی سوالات اس طرح سے ہمارے مجموعی سیاسی بیانیے کا حصہ بنا دیے گئے ہیں کہ بڑے بڑے نابغۂ روزگار صاحبان علم اور دانشور حضرات بھی، کوئی کھوج کیے بنا، ان کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں۔ انہی میں سے ایک مشترکہ قومی سوال جو نسل در نسل سے اٹھایا جاتا رہا ہے، وہ یہ کہ بھٹو کے جیالے اس قدر ’ذہنی غلام‘ کیوں ہیں؟

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی صاحب سے کون واقف نہیں۔ وہ فزکس اور تعلیم کے میدان میں اپنا کردار خوب نبھا رہے ہیں۔ سائنس کے علاوہ معاشرتی ذہن سازی کو بھی وہ اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور ڈان کے لئے ان کے کالمز بھی ایسے دلائل سے بھرپور ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنوں، روزنامہ ڈان میں ڈاکٹر صاحب کا ایک کالم شائع ہوا جس میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کی مقبولیت کا تقابل کرنے کی کوشش کی اور اس تگ و دو میں وہ ان کے متوالے سیاسی ورکرز کی سوجھ بوجھ اور عقلی وسائل کی توجیہہ لانے میں ایسے الجھے کہ بات کھینچتے کھینچتے جانوروں تک لے گئے۔ ان کی دلیل کی بنیادی کجی تو اسی بات سے عیاں ہے کہ انہوں نے بھٹو اور عمران خان کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا۔ اگرچہ رائے زنی ان کا جمہوری حق ہے مگر اپنے موقف کی تائید میں وہ کوئی موثر استدلال لانے سے قاصر رہے۔

یہاں، ڈاکٹر صاحب کی بنیادی جھلاہٹ اس امر پہ تھی کہ جب پیپلز پارٹی ادارے تباہ کرنے اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے کے سوا کوئی معرکہ سر انجام نہیں دیتی تو لوگ اسے دوبارہ ووٹ کیوں دیتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے جب بھٹو کی پھانسی پہ خود سوزی کرنے والوں اور بینظیر بھٹو کی شہادت پہ بے حال ہونے والوں کی ذہنی کیفیت کا تقابل جانوروں سے کیا تو بہت تعجب ہوا کہ اتنے بڑے سکالر کو آج تک یہ بنیادی نکتہ ہی سمجھ نہیں آ سکا کہ پی پی کا جیالا کیوں اپنے لیڈر پہ جان نچھاور کرتا ہے، بھٹو کیوں ایسی شدت سے آج بھی دلوں میں بستا ہے اور آخر کیوں اس خاندان کو ایسے جان نثار جیالے میسر ہیں جو مذہبی پیشوائیت کے علاوہ کسی اور شعبے کو نصیب نہیں ہوا کرتے۔

اور ایک عمومی سوال یہ بھی ہے کہ بھٹو تو قتل کے الزام میں عدالت سے ’مجرم‘ بھی ثابت ہوئے اور پھر قانونی چارہ جوئی کے نتیجے میں دار پہ بھی چڑھا دیے گئے تو پھر ایک ’قاتل‘ ہونے کے باوجود وہ یوں نسل در نسل لوگوں کے دلوں میں کیسے بستے چلے گئے۔

یہ سبھی تاریخی حقائق اپنی جگہ، ہمیں محض ان سیاسی حقائق سے سروکار ہے جو بھٹو اور اس کے جیالے کے تعلق کی توجیہہ کر پائیں۔

بھٹو اور غریب کا رشتہ کیا تھا، یہ پاکستانی اشرافیہ تو درکنار، مڈل کلاس عوام بھی کبھی نہیں سمجھ پائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف غریب کے سامنے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنا گریبان چاک کیا کرتے تھے بلکہ انہوں نے عملی طور پر جنوبی پنجاب اور سندھ کے پسماندہ ترین علاقوں میں، نسل در نسل غلامی میں پستے، بے زمین ہاریوں کو زمینیں دلوائی تھیں۔ انہیں مزارع سے کسان کا درجہ دلوا کر اپنے پاؤں پہ کھڑا کیا تھا۔

اور جو لوگ نسل در نسل جسمانی غلامی کی اذیت کاٹتے آ رہے تھے، ان کے لئے یہ ذہنی غلامی جیسی لفاظی کوئی وقعت ہی نہیں رکھتی۔ یہ بات بھی ڈاکٹر ہود بھائی صاحب سمیت بہت سے تعلیم یافتہ اذہان کو سمجھانا مشکل ہے کہ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے افضل کیونکر ہے۔ یہ احساس صرف اسی میں سرایت کر سکتا ہے جس نے خود نسل در نسل جسمانی غلامی جھیلی ہو۔

رہی بات یہ کہ جب پی پی کام ہی نہیں کرتی تو پھر ووٹ کیسے مل جاتے ہیں؟

یہ بات بھی ہود بھائی صاحب اور ان کی ایلیٹ کلاس کبھی سمجھ نہیں پائے گی کہ پاکستان کا ووٹر اس کے تجزیہ کار سے زیادہ سیاسی شعور رکھتا ہے۔ آپ قلم گھسیٹتے گھسیٹتے جس قدر چاہیں، الجھا لیں، مگر راجن پور کے کسی دور دراز گاؤں میں کیکر کے نیچے بیٹھ کر حقہ پیتا ستر سال کا بزرگ جیالا بخوبی جانتا ہے کہ بھٹو کو شہید کیوں کیا گیا، محترمہ بے نظیر بھٹو پہ گولیاں کس نے چلائیں، پانچ سالہ حکومت میں آصف زرداری کا ناطقہ کس نے بند کیے رکھا۔ عملاً دیکھا جائے تو اس ’جاہل‘ جیالے کی سیاسی دانش ہم جیسے پڑھے لکھے تجزیہ کاروں سے بہت آگے ہے۔

آپ لاکھ موروثی سیاست کے طعنے دے لیجیے، بھٹو کا ورکر یہ بات کبھی نہیں بھولتا کہ اس خاندان میں اپنی مرضی سے سیاست کرنے صرف ذوالفقار علی بھٹو آئے تھے۔ محترمہ بے نظیر اور بلاول بھٹو کو سیاست میں جیالے نہیں لائے، ریاست کی حرکتوں نے پارٹی کے دائرۂ امکانات کو یکے بعد دیگرے ایسا ہدف بنایا کہ آج بھٹو کی پارٹی کا چیئرمین ان کا نواسہ ہے۔

رہا یہ سوال کہ عوامی شعور کیسے بیدار ہو گا اور اس نسل در نسل کی ذہنی غلامی کا مداوا کیسے ہو گا، تو یہ جان لیجیے کہ اگر آج ادارے واقعی غیر سیاسی ہو گئے ہیں اور سیاست دانوں کے لئے رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جا رہیں تو لکھ رکھئے اگلے دس سال میں پی پی اور نون لیگ کا نام و نشان تک مٹ جائے گا اگر یہ کارکردگی نہ دکھا پائے۔

لیکن اگر آپ یونہی انہیں کبھی عدالتوں، کبھی بند دروازوں کے پیچھے سے اور کبھی کونوں کھدروں سے وار کر کے ڈھیر کرنے کی سازشیں بنتے رہے تو پھر یہ نظریہ کبھی نہیں مرے گا بلکہ مزید قوت سے ابھر کر سامنے آئے گا۔

اور آخر میں قابل احترام ڈاکٹر ہود بھائی صاحب سے دست بستہ عرض ہے کہ اگر کوئی مجھ جیسا کم علم انسان یہ سوال اٹھا بھی دے کہ جیالے کیوں ایسے جانوروں کی طرح ذہنی غلام ہیں تو بات شاید اتنی بڑی نہ ہو مگر حضور! آپ تو پاکستان کے معتبر ترین اخبار کے تجزیہ کار ہیں اور پاکستان میں جمہوری فہم و فراست رکھنے والا ایک طبقہ آپ کو نہایت سنجیدگی سے پڑھتا ہے۔ پلیز نہ کیا کریں ایسے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments