مزاح کا سنجیدہ تجزیہ


مشہور فلسفی فریڈرک نیٹشے سے کسی نے پوچھا کہ انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے تو انہوں نے فرمایا تین فرق ہیں

انسان خود کشی کر سکتا ہے
انسان وعدہ کر سکتا ہے اور
انسان ہنس سکتا ہے۔
نیٹشے کے کہنے کے مطابق ہنسنا ایک منفرد انسانی خصوصیت ہے۔

جب کوئی انسان مزاحیہ ڈرامہ دیکھتا ہے ’مزاحیہ خاکہ پڑھتا ہے یا مزاحیہ لطیفہ سنتا ہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے‘ اس کے دل میں گدگدی ہوتی ہے اور وہ ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ ہنسنے سے اس کے دل پر چھائے غم کے بادل چھٹنے لگتے ہیں اور بادلوں کے پیچھے چھپا خوشی کا چاند ابھرنے لگتا ہے۔ اس طرح اس کا کیتھارسس ہو جاتا ہے ’مزاحیہ ڈرامہ‘ خاکہ اور لطیفہ اس کی ذہنی صحت کے لیے ٹانک کا کام کرتا ہے اور مزاح نگار وقتی طور پر اس کا مسیحا بن جاتا ہے۔

سگمنڈ فرائڈ نے بھی مزاح کو ذہنی صحت کے لیے اعلیٰ درجے کی حفاظتی تدبیر قرار دیا اور فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ پر ہنس سکتا ہے اور ظرافت کا اعلیٰ ذوق رکھتا ہے وہ زندگی کے مسائل سے بہتر طور پر نبرد آزما ہو سکتا ہے۔ مزاح انسان کو ذہنی طور پر صحتمند رکھتا ہے۔

چونکہ مزاح کا ذہنی صحت کے ساتھ قریبی رشتہ ہے اس لیے ایک ماہر نفسیات اور ادیب ہونے کے ناتے میں نے سوچا کہ مجھے مزاح کی نفسیات کے بارے میں کچھ جاننا چاہیے۔ ہو سکتا ہے مزاح کے راز مجھے ایک بہتر ماہر نفسیات بننے میں مدد کریں اور میں اپنے مریضوں کی بہتر خدمت کر سکوں۔

جب میں نے مزاح کی نفسیات پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ مزاح کا نہ صرف زبان اور کلچر سے بلکہ انسان کی سوچ اور شخصیت سے بھی گہرا تعلق ہے۔

جب میں نے نفسیات کی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اکثر ماہرین نفسیات نے مزاح کے ساتھ سوتیلے بچوں کا سا سلوک کیا ہے اسی لیے اکثر روایتی درسی کتابوں میں مزاح کا کوئی باب نہیں ملتا۔ انہوں نے مزاح کو سنجیدہ نہیں لیا۔ مزاح کی نفسیات جاننے کے لیے مجھے غیر روایتی ادیبوں اور کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑا۔ ان کتابوں کے مطالعے سے میں نے جانا کہ مزاح ایک ایسی انسانی کیفیت ہے جو ہر معاشرے اور ثقافت میں پائی جاتی ہے یہ علیحدہ بات کہ مختلف معاشروں میں اس کے اظہار کے انداز مختلف ہیں۔

انسانی بچہ چند ماہ کی عمر سے مسکرانا شروع کر دیتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حس مزاح میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ مزاح انسانی شخصیت اور زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔

بچے دن بھر کھیلتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں مختلف قسم کے کھیل پسند ہوتے ہیں۔ کھیل کا مزاح کی نفسیات سے گہرا تعلق ہے کیونکہ مزاح میں انسان لفظوں ’خیالوں اور جذبوں سے کھیلتے ہیں اور اسی کھیل سے مزاح پیدا ہوتا ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ بعض دفعہ مزاح کا کسی زبان یا کلچر سے اتنا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ اگر اس کا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا جائے تو وہ بات مزاحیہ نہیں رہتی اور دوسرے کلچر کے انسان اس مزاح سے محظوظ نہیں ہو پاتے۔ اسی لیے لطیفوں کا ترجمہ کرنے والوں کو بہت سے لسانی‘ سماجی اور ثقافتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ مضمون لکھتے ہوئے مجھے ایک جرمن وزیر کا واقعہ یاد آیا جو یورپ کے سیاسی سفر پر نکلا ہوا تھا۔ وہ جس ملک جاتا وہاں کی حکومت اسے ایک مترجم دیتی تا کہ وہ اس کی تقریر کا مقامی زبان میں ترجمہ کر سکے۔ جب وہ جرمن سویڈن پہنچا تو حکومت نے اسے ایک سویڈش مترجم دیا۔ اس شام تقریر کے دوران جرمن وزیر نے ایک طویل لطیفہ سنایا۔ لطیفے کے آخر میں مترجم نے سویڈش زبان میں ایک جملہ کہا اور سارا ہال ہنسنا شروع ہو گیا۔ جرمن وزیر بہت حیران تھا۔ چنانچہ ائرپورٹ پر رخصت ہوئے اس نے مترجم سے پوچھا کہ اس نے اتنا لمبا لطیفہ کیسے ایک مختصر جملے میں ترجمہ کر دیا۔ مترجم مسکرایا اور کہنے لگا میں نے حاضرین سے کہا۔

’۔ ہمارے مہمان نے لطیفہ سنایا ہے آپ سب زور زور سے ہنسیں‘ ۔

جب ہم کسی زبان یا کلچر کے مزاح کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس کے چار پہلو نظر آتے ہیں۔

مزاح کا سماجی پہلو

بہت کم لوگ تنہائی میں ہنستے ہیں۔ مزاح اکثر اوقات ایک سماجی عمل کے طور پر سامنے آتا ہے۔ جب دو دوست آپس میں ملتے ہیں تو ہنسی مذاق اور لطیفوں سے ایک دوسرے کو محظوظ کرتے ہیں۔

کئی دوست یا رشتہ دار مل کر مزاحیہ ڈرامہ دیکھتے ہیں اور ہنستے ہیں۔

جو لوگ اکٹھے رہتے ہیں وہ ایک دوسرے سے بور ہونے لگتے ہیں اور مزاح کے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ ایک وزیر ایک نرسنگ ہوم گیا جہاں بہت سے بزرگ مرد اور عورتیں مدتوں سے اکٹھے رہ رہے تھے۔ وزیر کو نرسنگ ہوم کا ڈائرکٹر اس کمرے میں لے گیا جہاں سب بزرگ خاموشی سے بیٹھے تھے۔ پھر ایک بزرگ نے کہا

نمبر چار۔ اور سب ہنس دیے

کچھ دہر کے بعد دوسرے بزرگ نے کہا
نمبر نو اور پھر سب ہنس دیے۔

وزیر نے ڈائرکٹر سے پوچھا کہ یہ بزرگ کیوں ہنس رہے ہیں۔ ڈائرکٹر نے کہا کہ یہ بزرگ کئی سالوں اور دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے لطیفے بار بار سن کر تھک چکے تھے اب انہوں نے ایک ترتیب سے سب لطیفوں کو نمبر دے رکھے ہیں

جب کوئی کہتا ہے۔ نمبر چار۔ تو سب کو وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے اور وہ سب ہنس دیتے ہیں۔ اس طرح بوریت کم ہوتی ہے اور مزاح زیادہ۔

مزاح کا ذہنی پہلو

مزاح پیدا کرنے کے لیے کسی انسان کے ذہن کے لیے اس طرح کا کام کرنا ضروری ہے کہ وہ مختلف الفاظ اور خیالات اور واقعات کو اس طرح مربوط انداز میں پیش کرے کہ دوسرے انسان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل جائے۔ الفاظ کی وہ ترتیب ایک ایسا فن ہے جسے مزاحیہ اداکار ’مزاحیہ فنکار اور مزاح نگار بخوبی جانتے ہیں۔ وہ نہ صرف خود ہنستے ہیں بلکہ دوسروں کو ہنساتے بھی ہیں۔ وہ الفاظ اور خیالات سے اٹکھیلیاں کرنا جانتے ہیں۔ ان اٹکھیلیوں سے ایک ہی لفظ سے ایک سے زیادہ معنی ابھرتے ہیں اور دوسروں کو ہنساتے ہیں۔

میرے ایک مزاحیہ دوست کہا کرتے ہیں
I like puns because I am a Punjabi

بعض دفعہ دو مختلف الفاظ کے تقابل سے مزاح پیدا ہوتا ہے مثال کے طور پر یہ جملہ
atheism is a non-prophet organization

اس جملے میں non profit اور non prophet کی صوتی مماثلت سے مزاح پیدا کیا گیا ہے ۔

بعض دفعہ مختلف الفاظ کے مختلف استعمال سے مزاح پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوست نے مجھے یہ بتا کر ہنسایا کہ
When people ask me, Are you a Muslim? ”

I say ”I am an outstanding Muslim. When people go inside the mosque I stand outside. So I am an outstanding Muslim.“

میرے مزاح نگار دوست مرزا یاسین بیگ نے ایک مزاحیہ کردار تخلیق کیا ہے جو خلیل جبران کا دور کا رشتہ دار ہے۔ ان کا نام۔ علیل جبران ہے۔ وہ فرماتے ہیں

’پاکستان چلانے میں کسی کا کوئی کردار نہیں۔ سب بدکردار ہیں‘
’آج کے دور میں لوگوں کے ظرف چھوٹے ہو گئے ہیں اور ظروف بڑھ گئے ہیں‘
’کیا دور آ گیا ہے اب نہ وہ‘ پگ ’رہی نہ وہ‘ پگ ڈنڈیاں ’
’اگر پاکستان کے دارالخلافہ کا نام اسلام آباد نہ ہوتا تو آدھے پاکستانی اب تک اسلام بھول چکے ہوتے‘

مزاح کا جذباتی پہلو

مزاح ذہنی پہلو کے ساتھ ساتھ ایک جذباتی پہلو بھی رکھتا ہے۔ ہم مزاح سے صرف ذہنی طور پرہی محظوظ نہیں ہوتے ہم اس سے جذباتی طور بھی خوش ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارا موڈ بہتر ہوتا ہے۔ وہ ہمارا غم غلط کرتا ہے۔ وہ ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں ہم اپنے سارے دکھ اور غم وقتی طر پر بھول جاتے ہیں۔

انسانی دماغ کے ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ کارٹون دیکھنے سے ہمارے دماغ کے وہ حصے روشن ہو جاتے ہیں جن کا تعلق صلہ ملنے اور انعام پانے والے reward centre سے ہے۔ اسی لیے مزاح ہمیں جذباتی طور پر صحتمند رکھتا ہے کیونکہ مزاح کا خوشی ’مسرت اور شادمانی سے گہرا تعلق ہے۔

مزاح کا جسمانی پہلو

مزاح سے پہلے ہم مسکراتے ہیں پھر ہنستے ہیں اور پھر قہقہے لگاتے لگاتے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔ یہ مزاح کا جسمانی پہلو ہے۔

ہنستے ہنستے دوست ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور بعض دفعہ ہنستے ہنستے کرسی سے زمین پر گر جاتے ہیں۔

بعض لوگ اتنی زور زور سے ہنستے ہیں کہ دوسرے کمرے سے لوگ انہیں دیکھنے اور لطیفہ سننے چلے آتے ہیں کیونکہ وہ بھی ہنسنے میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔ ہنستے ہوئے انسان منہ سے ایسی آوازیں نکالتے ہیں کہ سننے والوں کے دل میں گدگدی ہونے لگتی ہے جو انہیں لاشعوری طور پر ہنسنے کی دعوت دیتی ہے۔

ہنسنے میں صرف ایک قباحت ہے اور وہ یہ ہے کہ
مل کر ہنسنا
کسی پر ہنسنے سے مختلف ہے۔

ایک میں مزاح ہے دوسرے میں طنز اور تضحیک۔ تضحیک سے دوسرے کی بے عزتی ہوتی ہے ذلت ہوتی ہے اور اس کا دل دکھ جاتا ہے۔

اسی لیے مزاح نگار جانتے ہیں کہ مزاح اور مذاق میں بڑا فرق ہے۔

مزاحیہ اداکار اور مزاح نگار تو سوچ سمجھ کر مزاح تخلیق کرتے ہیں لیکن بہت سے لوگ گفتگو کے دوران فی البدیہہ مزاح کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ مزاح ان کی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے اور وہ زندگی کو ایک مزاحیہ انداز سے دیکھتے ہیں۔ وہ غیر ارادی طور پر مزاح پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خود بھی ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں۔

بعض دفعہ اخباروں کی سرخیاں غیر ارادی اور لاشعوری طور پر مزاح پیدا کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ہے
Prostitutes appeal to the Pope

اس سرخی میں لفظ appeal ذومعنی ہے اس لیے مزاح پیدا کرتا ہے۔ طوائفیں پوپ سے درخواست بھی کر رہی ہیں اور اسے لبھا بھی رہی ہیں۔

بطور ادیب کے مجھے دھیرے دھیرے اندازہ ہو رہا ہے کہ مزاحیہ اداکار فنکار اور مزاح نگار وہ انسان ہیں جو نہ صرف خود ہنستے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں۔

اور بطور ماہر نفسیات کے میں یہ جان رہا ہوں کہ مزاح نہ صرف سماجی روابط کو بلکہ ذہنی صحت کو بھی بہتر بناتا ہے۔

اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ مزاح ایک سنجیدہ مطالعے اور تجزیے کا متقاضی ہے۔
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments