اردو بے ادبی کی رومنی تحریک


یاران سخن کی رومانوی تحریک سے شناسائی تو مسلم ہے البتہ آج اردو کی رومنی تحریک کا ذکر بطور ادبی بدعت ہو رہا ہے۔ زبان کی دیگر تحریکوں کی طرح اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے، احباب میں اس اسلوب کی ترغیب دینے اور اردو کو رومن میں ڈھالنے کا رومنی رجحان تمام تحریکوں پر بھاری ثابت ہو رہا ہے۔ عہد رواں میں با طفیل سوشل میڈیا، رومن لکھاوٹ سب سے بڑا رسم الخط بن چکا ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ زبانوں کی ترویجی سر گرمیوں میں کسی کو ”تحریک“ کہا گیا تو کوئی دبستان میں شمار کی گئیں اور کچھ محض رجحان کا مقام پا نے میں سفل ہوئیں۔

رومن حروف کا استعمال مذکورہ تینوں اصطلاحوں پر سر چڑھ کر پورا اترتا ہے۔ پہلے فقط رواجا و عادتا لکھت پڑھت کا عمل رہا۔ پھر حالات کے تقاضوں کی رواداریاں نبھاتے نبھاتے دبستان کا درجہ حاصل کیا اور اب اک منظم جدوجہد کے روپ میں تحریک کا پیش خیمہ ہے۔ اس جہان رنگ و بو کے دیگر امور کی مانند ”رومنی تحریک“ پر بھی احباب ہر دو رائے سے دو چار ہیں۔ سوشلستانیوں کی اکثریت اس کی حامی تو بہتیرے مخالف و معترض بھی ہیں۔ پہلے مخالفین کی آراء کو زیب داستاں بناتے ہیں۔

Anti Roman Class

بہت سے محبان اردو رومن اسلوب کو اردو کے لئے سم قاتل گردانتے ہیں اور اسے اردو کا خون ہونے کے مترادف خیال کرتے ہیں۔ داعیان تقدیس اردو کسی قیمت پر اس گھس بیٹھیے رسم الخط کو قبولنے پہ راضی نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب اردو کی باتیں انگریزی حروف میں لکھنا عیب نہ رہے تو پھر کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ اردو کا اپنا معقول رسم الخط ہونے کے باوجود رومن کا استعمال فکری بد دیانتی سمجھی جائے گی۔

رومن میں اردو لکھنے کے فتنے کا آغاز ایوب خان کے دور سے ہوا۔ سنا ہے کہ اسلامی و اردو جمہوریہ پاکستان کے سربراہ کو قوم سے خطاب کرنے میں اردو رسم الخط سے الجھن ہوتی تھی لہٰذا وہ اپنی تقریر رومن میں لکھوا کر پڑھا کرتے تھے۔ کچھ ایسے ہی معاملات بلاول بھٹو کے ساتھ بھی ہیں۔ بر صغیر میں اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ فورٹ ولیم کالج میں گلکرسٹ نے 721 صفحات کی انگریزی ہندوستانی لغت مرتب کی اور مرزا رفیع سودا کی شاعری کو بھی رومن میں چھپوایا۔

کچھ کے خیال میں اردو کی اس بے ادبی میں سب سے بڑا ہاتھ سلطنت روم اور اس کے ماہرین لسانیات کا ہے۔ نہ وہ رومن حروف ایجاد کرتے اور نہ ہماری اردو خراب ہوتی۔ بعض کے نزدیک اس بد زبانی و بد خطی کے پیچھے انٹر نیٹ پیکجز کے لمبے لمبے ہاتھ ہیں۔ اور چند احباب اسے مخنث رسم الخط شمار کرتے ہیں کیونکہ یہ ”ہی یوں“ میں ہے نہ ”شی یوں“ میں ہے۔ ویسے ہم پر رومن لکھنے کے لئے کسی صیہونی طاقت کا دباؤ نہیں ہے۔ رومن کے اس عذاب پر لطیفہ ہے کہ اک نوبیاہتا جوڑے کے مابین فون پہ رومن خط میں پیغام رسانی کا رومانوی عمل جاری تھا۔ راز و نیاز کا تحریری تبادلہ رنگ پہ تھا کہ اچانک شوہر نے ازراہ تفنن ”کٹی“ لکھ کر محبت بھری خفگی کا اظہار کر دیا۔ جب بیوی نے kutty لکھا دیکھا تو ”کتی“ سمجھ کر بگڑ گئی اور بات دور تک جا پہنچی حتیٰ کہ دونوں خاندانوں میں بھی دراڑیں پڑ گئیں۔ کچھ زبان پسند، رومن کو اردو کی سوکن قرار دیتے ہیں۔

pro roman class

جب سے سوشل میڈیا نے اک زمانے کو اپنے طلسم میں جکڑا ہے تب سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہزاروں ماہرین کے ظہور میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ ایسے ہی علم و ادب کے دانشور، محقق اور نقاد ہمہ وقت مصروف نقل و عمل ہیں۔ ان کا نچلا بیٹھتا ہے نہ زبان تالو سے لگتی ہے۔ رومن کو ناجائز و حرام سمجھنے والے مفتیان اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں تو ادھر رومن پسندوں کی واضح اکثریت رومن کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ زبان وہی ہوتی ہے جسے عوام بولے اور لکھے۔

سوشل میڈیا پر لوگ اپنی مرضی کا لکھ اور بول رہے ہیں اور یہی علم و ادب کی زبان ہے۔ یہی اردو کا نیا پہناوا ہے اور یہی سائبر اردو ہے۔ ملائشیا، ترکی اور بہت سے ممالک میں لوگ رومن سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہاں کے بچے شروع سے ہی عالمی حروف سیکھ لیتے ہیں۔ رومن پسندوں کا کہنا ہے کہ زبان کوئی خدائی چیز نہیں ہے۔ اللہ نے علم الاسماء کا ذکر کیا ہے نہ کہ علم اللسان کا۔ :۔ زبانوں میں تکنیکی خامیاں ہوتی ہیں جنھیں دوسری زبانوں کی خوبیوں سے متوازن کیا جا سکتا ہے۔

امجد چشتی کی کتاب، اردو بے ادبی کی مختصر تاریخ، سے اقتباس،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments