بلوچستان: ضلع کیچ سے مبینہ خاتون خود کش بمبار نور جہاں بلوچ کی گرفتاری

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


بلوچستان
خاتون کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے
مکران کاﺅنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) نے ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ سے حراست میں لی جانے والی خاتون نورجہاں بلوچ کو تربت میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر دیا۔ حکام نے بتایا کہ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

محکمے نے دعویٰ کیا ہے کہ خاتون ایک خود کش حملے کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔

اس خاتون کی جانب سے جاڑیں دشتی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ عدالت کے جج محمد یوسف نے ان کو اور ان کے ایک ساتھی کو سات یوم کی ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے سی ٹی ڈی کو دو دن میں ان کے میڈیکل سرٹیفیکٹ بھی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

جاڑیں دشتی ایڈووکیٹ نے بتایا انھوں نے خاتون کی ضمانت پر رہائی کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔

دریں اثنا خاتون کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہوشاپ میں مظاہرین نے گوادر اور کوئٹہ کے درمیان شاہراہ کو بطور احتجاج منگل کودوسرے روز بھی بند رکھا۔ مظاہرین نے گرفتار خاتون پر عائد الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟

نورجہاں بلوچ کے خلاف ایف آئی آر تربت میں سی ٹی ڈی مکران کی جانب سے درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ایک حساس ادارے کے افسران کو اطلاع ملی تھی کی نورجہاں اپنے ایک ساتھی جس کا تعلق کالعدم بی ایل اے کی ذیلی شاخ مجید بریگیڈ سے ہے بھاری اسلحہ و بارود اور خود کش جیکٹ کے ساتھ ہوشاپ کے ایک گھر میں موجود ہیں اور وہ مذکورہ خاتون کے ذریعے اہم مقام پر خود کش حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

اس اطلاع پر لیڈی کانسٹیبلوں سمیت ایک چھاپہ مار پارٹی تشکیل دی گئی اور حساس ادارے کے اہلکاروں کے ہمراہ ہوشاپ میں مذکورہ گھر پر چھاپہ مارا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

ریاست پاکستان کی کوششوں کے باوجود بلوچ نوجوان عسکریت پسندی کی جانب مائل کیوں ہو رہے ہیں؟

شاری بلوچ کے اہلخانہ کو اب بھی لگتا ہے ’جیسے یہ کوئی بُرا خواب ہے‘

کراچی یونیورسٹی: حملہ آور کون تھیں اور پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ کیا ہے؟

ایف آئی آر کے مطابق جب اہلکار ان گھر کے اندر داخل ہوئے تو وہاں کمرے سے لیس ایک شخص کے علاوہ ایک خاتون باہر نکل کر آئیں۔

ایف آئی آر کے مطابق انکے کمرے سے نکلتے ہی مرد و خواتین اہلکاروں نے دونوں کو قابو کرلیا۔ دریافت کرنے پر مرد نے اپنا نام فضل کریم جبکہ خاتون نے اپنا نام نورجہاں بتایا۔

لیڈی کانسٹیبلوں کی جانب سے تلاشی پر خاتون نے خود کش جیکٹ پہن رکھی تھی اور بروقت قابو کرنے کی وجہ سے خود کش جیکٹ کو نہیں اڑایا جاسکا۔

بلوچستان

محکمے نے دعویٰ کیا ہے کہ خاتون خود کش حملے کی منصوبہ بندی کررہی تھی

پولیس کے مطابق خود کش جیکٹ کو بم ڈسپوزل ٹیم نے ناکارہ بنادیا اور وہاں سے اسلحہ و بارودی مواد برآمد کیا گیا۔

دو صفحات پر مشتمل اس ایف آئی آر میں اس تمام بارودی مواد کی تفصیل دی گئی ہے جو کہ سی ٹی ڈی کے مطابق اس گھر سے برآمد کیے گئے ۔

نورجہاں بلوچ کون ہیں اور ان کے ہمسایوں نے گرفتاری کے وقت کیا دیکھا؟

نورجہاں بلوچ کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ سے ہے۔

وہ شادی شدہ ہیں اور ہوشاپ سے تعلق رکھنے والے ایک شہری فضل بلوچ کی اہلیہ ہیں۔

ان کی رہائی کے خلاف احتجاج میں شریک سول سوسائٹی تربت کے کنوینرگلزاردوست بلوچ نے بتایا کہ نورجہان بلوچ ایک عام گھریلو خاتون ہیں۔

ان کا کہنا تھا نورجہاں کے تین کم سن بچے ہیں۔

نورجہاں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج میں شریک ایک خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بتارہی ہے کہ نورجہاں کو کیسے گرفتار کیا گیا۔

احتجاج میں شریک خاتون نے بتایا کہ گرمی کی وجہ سے وہ اور ان کے گھر کے دیگر افراد رات کو اپنے گھر کے صحن میں باہر سورہے تھے کہ انھوں نے اپنے گھر کے قریب ٹارچ کی روشنییاں دیکھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت نورجہاں کے گھر کے باہر سیکورٹی فورسز کے متعدد اہلکار اور گاڑیاں تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان اہلکاروں کے ساتھ چار خواتین تھیں جن میں سے تین نے نورجہاں کو پکڑرکھا تھا اور ایک تھوڑی دور کھڑی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے دیکھا کہ نورجہاں ننگے پاﺅں تھی اور ان کے سرپر دوپٹہ بھی نہیں تھا اور وہ انہیں اُسی حالت میں اپنے ساتھ لے گئے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ایک اہلکار خاتون نے نورجہاں کو مخاطب کرکے یہ کہا کہ ’تم نے کہا تھا تم شاری جیسی بنو گی اور ان کی طرح فدائی حملہ کروگی۔‘

احتجاج میں شریک خاتون نے کہا کہ نورجہاں بلوچ کم پڑھی لکھی خاتون ہیں اور وہ گھبرائی ہوئی تھیں۔

احتجاج میں شریک خاتون کے مطابق نورجہاں تو ٹچ سکرین والا فون تک استعمال نہیں کرتی تھیں۔

نور جہان ، احتجاج

نور جہان ، احتجاج

نورجہاں بلوچ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج

نورجہاں کو حراست میں لینے کے خلاف ہوشاپ کے مقام پر علاقہ مکینوں نے بطور احتجاج گوادر اور کوئٹہ کے درمیان شاہراہ کو بند کیا۔

گلزار دوست بلوچ نے نورجہاں بلوچ کے خلاف تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔

انھوں نے نورجہاں بلوچ کے رشتہ داروں کے ہمراہ کمشنر مکراں ڈویڑن سے ملاقات کی اور خاتون کی فوری رہائی کا مطالبہ ک0یا۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی رہائی کی بات نہیں مانی گئی جس کے باعث گوادر کراچی ہائی وے پر احتجاج کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments