ٹاک ٹاک کے لیے مارگلہ کی پہاڑیوں پر آتشزدگی: ’آگ لگانا کھیل تماشا نہیں ہے بلکہ یہ ہولناک جرم ہے‘

محمد زبیر خان - صحافی


’میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ کوئی اتنا بے حس ہوسکتا ہے کہ اچھے کپڑے پہن کر اور اسٹائل بنا کر اپنی ویڈیو کو وائرل کرنے کے لیے جنگلات میں آگ لگا دے۔ اس کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گئی۔ جہاں تک ممکن ہوگا ایسے لوگوں کو قانون کے کہڑے میں کھڑا کیا جائے گا۔ ‘

یہ کہنا تھا کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں وائڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیرمئین رعنا سعید خان کا۔

رعنا سعید خان کہتی ہیں کہ کیپٹل ڈیوپلومنٹ اتھارٹی نے مارگلہ اسلام آباد میں آگ لگانے والی خاتون ماڈل کے خلاف پولیس کو درخواست دے دی ہے۔ امید ہے کہ پولیس جلد ہی ان کو قانون کے کہڑے میں کھڑا کرئے گئی۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی درخوست پر ضروری تفتیش کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا۔

بی بی سی نے ماڈل کہلوانے والی ڈولی سے رابطہ قائم کیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

رعنا سعید خان کہتی ہیں کہ ’جنگلات میں آگ لگانا کھیل تماشا نہیں ہے بلکہ یہ ہولناک جرم ہے۔ اس جرم کی آسڑیلیا جیسے ممالک میں سزا عمر قید ہے۔ پاکستان میں بھی جنگلات اور پہاڑوں پر آگ لگانے کے عمل پر قابو پانے کے لیے اتنی ہی سخت سزا کی ضرورت ہے۔ ‘

جنگل میں آگ لگا کر ٹک ٹاک ویڈیوز

مبینہ طور پر مارگلہ کی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی شکایت پر خاتون ماڈل کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

کیپٹیل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے شعبہ ماحولیات کے اسٹنٹ ڈائریکٹر اعجاز الحسن نے پولیس کی دی گئی اپنی درخواست میں کہا ہے کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا علاقہ ہے۔ جہاں پچھلے کچھ دونوں میں آتشزدگی کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ جس میں ایک وسیع رقبے پر پودوں،گھاس اور چرند پرند کو نقصاں ہوا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ٹک ٹاکر کے خلاف ماحولیات، وائلڈ لائف اور فارسٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔

واضح رہے کہ مبینہ طور پر خاتون ماڈل کی جانب جنگل میں آگ لگا کر بنائی جانے والی ٹک ٹاک وڈیو ایسی پہلی وڈیو نہیں ہے بلکہ اس وقت سوشل میڈیا پر کئی وڈیو وائرل ہوچکی ہیں۔ جس میں ٹک ٹاکر جنگل میں آگ لگا کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس نے ایبٹ آباد میں ایسی ہی ایک وڈیو پر ایکشن لیتے ہوئے ایک نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔

وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آباد کے مطابق خاتون ماڈل کے علاوہ اس طرح نیشنل پارک ایوبیہ مارگلہ اسلام آباد میں دو نوجوانوں کی تلاش ہے جنھوں نے جنگل میں آگ لگا کر وڈیو بنائی تھی۔ ملک کے باقی صوبوں سے بھی ایسی وڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی سابق ممبر صوبائی اسمبلی آمنہ سردار کا کہنا تھا کہ ’لوگوں نے تو تماشا لگا دیا ہے۔ بارشیں ہو نہیں رہی ہیں۔ خشک سالی کا دور چل رہا ہے۔ جس ٹک ٹاکر کا دل چاہتا ہے وہ اٹھتا ہے اور جا کر جنگل میں آگ لگا کر وڈیو بنا دیتا ہے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کمال کے لوگ ہیں یہ جنھیں نہ تو شرم ہے نہ ہی حیا کہ اس طرح کرنے سے وہ جانداروں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اس طرح کی کئی وڈیوز سامنے آچکی ہیں پتا نہیں پاکستان میں یہ ٹرینڈ کہاں سے چلا اور کیسے ٹک ٹاکرز میں مقبول ہوگیا انھیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ جانداروں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔‘

اس طرح وہ پاکستان کے تباہ حال ماحولیات کو مزید تباہی سے دوچار کررہے ہیں۔ نوجوان کو ماحولیات کے حوالے سے حساس بنانے کے لیئے نصاب میں پڑھایا جانا چاہیے۔

کئی شکایات درج کروائی ہیں

آمنہ سردار کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد میں میں خود مختلف مقامات پر آگ لگنے کے واقعات کی گواہ ہوں۔

’اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں سے بھی اس طرح کی اطلاعات ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف چیخ رہے ہیں۔ اس بارے میں حکام کو بھی اطلاعات دی ہیں۔ مگر لگ رہا ہے کہ اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک ایک دو کو نشان عبرت نہیں بنا دیا جاتا ہے۔ ‘

سعد اورنگ زیب جو کہ جنگلات اور پہاڑوں میں آگ لگانے کے واقعات کے خلاف سرگرم عمل ہیں کہتے ہیں کہ عموما جنگل اور پہاڑوں پر آگ اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں یہ سوچ کر لگائی جاتی ہے کہ اس طرح اچھی گھاس حاصل ہوگئی مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ اس دفعہ پتا نہیں کیوں عید کے بعد سے ایسے واقعات شروع ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حوالے سے متعدد شکایات درج کروائی ہیں۔ مختلف اداروں سے رابطے کیے ہیں۔ کچھ لوگ اس جنگل پر اپنی مدد آپ کے تحت قابو پانے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر اس میں خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔

چرند پرند کو فریاد کرتے دیکھا

وقار خان جدون ایبٹ آباد کے رہائشی اور سابق ممبر کونسلر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی رہائش ایبٹ آباد میں ایک پہاڑی کے دامن میں ہے۔ یہاں پر اکثر اوقات لوگ آگ لگا دیتے ہیں تو ہم اپنے دوستوں اور بھائیوں کے ہمراہ اس آگ کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وقار خان جدون کے مطابق اس سال تین دن قبل ہم بمعہ فیملی کے کسی فیملی فنکشن میں جانے کے لیے نکلے تو دیکھا کہ پہاڑ کی چوٹی پر آگ لگی ہوئی تھی۔ ہم سب نے باہمی مشورے سے فیصلہ کیا کہ اپنے اس پروگرام کو مؤخر کرتے ہیں اور جا کر آگ بجھاتے ہیں۔

’میں آپ کو وہ منظر نہیں بتا سکتا کہ کس طرح چرند پرند فضا میں بلند ہو کر احتجاج کررہے تھے۔ وہ اس طرح آوازیں نکال رہے تھے جس طرح وہ ساتھیوں کی موت پر فریاد کررہے ہوں۔ وہ منظر نا قابل بیان ہیں۔‘

وقار خان جدون کہتے ہیں کہ ’آگ درختوں کو جلا کر راکھ بنا رہی تھی۔ ہم جب آگ کے قریب پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ چرند، پرند، حشرات بالکل جل چکے تھے۔ ان کے انڈے تباہ ہوچکے تھے۔ ان کے گھونسلے کالے ہوچکے تھے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم آگ کے قریب پہنچے تو وہ بہت تیز تھی اور بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔ ہم کسی نے کسی طرح دیسی طریقوں سے آگ پر قابو پانے کی کوشش کررہے تھے مگر ایسا ممکن نہیں ہورہا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ آگ پھیل جائے گئی۔ ہم لوگ بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید قدرت کو ان بے زبان مخلوق پر رحم آگیا۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ ’بالکل صاف آسمان پر بادل چھا گے اور اتنی بارش برسی کے آگ قابو میں آگئی تھی۔ قدرت تو انسانوں پر رحم کرتی ہی ہے مگر ہم انسان کسی پر رحم نہیں کرتے ہیں۔ آگ لگانے والے واقعات پر سخت ترین سزائیں ہونی چاہیں۔ ‘

سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اور ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جن مںی نہ صرف عام شہری خود آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ حکام سے مدد کی اپیل بھر کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

حریم شاہ کا ’یوٹرن‘، ویڈیو ریاستی اداروں کی ’تضحیک اور ہتک‘ قرار

’اب ترک لوگ پاکستانیوں کا اتنا خوشی سے استقبال نہیں کرتے‘

بڑا گھر نہ مہنگے کپڑے، مگر ٹک ٹاک پر وائرل

یوکرینی ٹک ٹاکر جو جنگ کی وائرل ویڈیوز پوسٹ کرنے سے راتوں رات مشہور ہوئیں

سوشل میڈیا پر رد عمل

پاکستانی سوشل میڈیا پر ٹک ٹاکرز اور نوجوانوں کی جانب سے شوقیہ ویڈیوز کے لیے جنگلات میں آگے لگانے کی ویڈیوز وائرل ہونے لگیں تو سوشل میڈیا صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ نوجوان فضول ویڈیوز کے لیے درختوں اور جانروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

لوگ مطالبہ کرتے نظر آئے کہ ان لوگوں کو سخت سزائیں دی جانی چاہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک شخص کی جانب سے ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں گاس نے ایک گھونسلے سے کسی پرندے کے بچوں کو ریسکیو کیا۔ ان پرندوں کا گھونسلہ اور ارد گرد کا علاقہ جل چکا تھا۔ اس ویڈیو پر کئی لوگوں نے جہاں دکھ اور افسوس کا اظہار کیا وہیں کئی لوگ آگ لگانے والے نوجوانوں کو کوستے نظر آئے۔

ایک صارف کا کہنا تھا ’یہ کیسی نسل ہے، والدین اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں، ہم مکمل تباہی کی طرف جا رہے ہیں، صرف 60 سیکنڈ کے کلپ کی خاطر دیکھیں انہوں نے کیا کیا، بھول گئے کہ ہم 60 سال میں بدترین درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

کچھ لوگ اس عمل پر سرزنش کرتے ہوئے یہ پوچھتے نظر آئے کہ اس جرم کی پاکستان مںی کیا سزا ہے؟

ایک صارف صوفیہ قیصر نے تو سزا کے ساتھ ساتطھ بحالی کا طریقہ بھی تجویز کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ ٹک ٹاکر کو ’گرفتار کرنا آسان ہے ، انہیں بظور سزا تمام متاثرہ علاقے میں تین فٹ اونچے پودے لگانے کی سزا دی جائے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments