بیٹے کی خواہش: کیا انڈیا اب بھی ’مسنگ ویمن‘ کا ملک ہے؟

شاداب نظامی - بی بی سی نیوز، دلی


انڈیا، بچہ
انڈیا میں ایک نئے حکومتی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں جنس کے اعتبار سے تناسب میں بہتری آئی ہے مگر ابھی بھی بڑی تعداد میں لوگ بیٹے کی خواہش رکھتے ہیں۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس-5) کے دوران تقریباً 80 فیصد لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کا کم از کم ایک بیٹا ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ یہ سروے انڈین حکومت کا گھروں تک جا کر ڈیٹا اکھٹا کرنے کا ایک جامع ترین سروے ہے۔

سروے میں اس کے لیے ’سن پریفرنس‘ یعنی بیٹی پر بیٹے کو ترجیح دینے کی اصطلاح استعمال کی گئی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹے آگے بڑھ کر خاندان کے نام کو آگے لے کر چلیں گے اور بڑھاپے میں اپنے والدین کا سہارا بنیں گے جبکہ بیٹیاں تو اپنے سسرال چلی جائیں گی اور ان کے جہیز کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔

اس حوالے سے آگاہی مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ مردوں کے حق میں یہ خواہش انڈیا کے لیے طویل عرصے سے شرم کا باعث بھی بنی کیونکہ انڈیا میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ رہی۔

سرکاری سروے کے مطابق ایک صدی سے زائد عرصے تک انڈیا میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ رہی۔

بچہ، عورت

سنہ 2011 کی آخری مردم شماری میں بھی ہزار لوگوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد 940 بنتی ہے اور بچوں کی شرح کے اعتبار سے جس میں پیدائش سے چھ سال کی عمر کے بچوں کو شامل کیا گیا، 1000 لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 918 بنتی ہے۔

ان اعدادوشمار کے بعد انڈیا پر تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ یہ ’مسنگ ویمن‘ کا ملک ہے تاہم سنہ 2019 اور 2021 کے درمیان کیا گیا یہ سروے پچھلے برسوں سے جنسی تناسب میں بہتری کو ظاہر کرتا ہے۔

سروے کے مطابق پہلی بار انڈیا میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ لڑکوں کی پیدائش کو اب بھی ترجیح دی جاتی ہے۔

15 فیصد سے زیادہ افراد (16 فیصد مرد اور 14 فیصد خواتین) نے سروے کرنے والوں کو بتایا کہ وہ بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں کے خواہش مند ہیں۔

یہ 2015-16 (این ایف ایچ ایس-4) سے بہتر ہے جب 18.5 فیصد خواتین اور 19 فیصد مرد مزید بیٹے چاہتے تھے لیکن بہت سے جوڑے ایک لڑکے کی خواہش پر بیٹیاں پیدا کرتے رہتے ہیں۔

دارالحکومت دلی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی تین لڑکیوں کی 32 برس کی ماں اندرانی دیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک مکمل خاندان چاہتی ہیں۔۔۔ جہاں دو لڑکے اور ایک لڑکی ہو۔

ان کے مطابق بھگوان کو کچھ اور ہی منظور تھا اور میرے ہاں بیٹیوں کی ہی پیدائش ہوئی۔ اب وہ اپنے مقدر پر راضی ہیں اور اب انھوں نے مزید بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ میرے شوہر ایک بس ڈرائیور ہیں اور ہم مزید بچوں کی نگہداشت نہیں کر سکتے۔

اندرانی دیوی کی طرح 15 سے 49 برس کی 65 فیصد شادی شدہ خواتین کی کم از کم دو لڑکیاں ہیں مگر ان کا کوئی بیٹا نہیں۔

ایسی خواتین نے رواں برس سرکاری سروے میں بتایا کہ وہ مزید بچوں کی خواہش نہیں رکھتی ہیں۔ گذشتہ برس ایسی خواتین کی تعداد 63 فیصد تھی۔

ایک اور حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ ایسی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا جو لڑکوں سے لڑکیوں کی زیادہ تعداد کی خواہشمند ہیں۔ گذشتہ برس ایسی خواتین کی تعداد 4.96 فیصد تھی جبکہ اس برس یہ تعداد بڑھ کر 5.17 فیصد ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیے

اتر پردیش میں دو سے زیادہ بچوں پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟

کیا انڈیا میں واقعی مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؟

کیا انڈیا میں لوگ کم بچے پیدا کر رہے ہیں؟ مسلمانوں میں صورت حال کیا ہے؟

اگرچہ یہ تبدیلی بہت معمولی نوعیت کی ہے مگر پھر بھی ایسے والدین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو زیادہ لڑکیوں کی خواہش رکھتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا براہ راست تعلق انڈیا کی گرتی شرح پیدائش سے ہے، جہاں ایک عورت کے جنم لینے والے بچوں کی اوسط تعداد کم ہو گئی ہے۔

شہری زندگی کا رحجان، خواتین کی تعلیم میں اضافہ اور مانع حمل ادویات تک رسائی نے شرح پیدائش کو دو تک محدود کر دیا ہے۔ اگر یہ تعداد تقریباً 2.1 سے کم ہو جائے تو آبادی کا حجم کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

1.3 ارب آبادی والے ملک کے لیے، یہ کوئی بری چیز نہیں لگ رہی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی میں صحت مند اضافے کے لیے، انڈیا کو اپنے جنسی تناسب کو بہتر کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments