فیک خبریں: خبر اتنی سادہ نہیں ہوتی


مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی طرف سے سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں کا ظاہر کچھ اور ہوتا ہے اور پس منظر یا تفصیل کچھ اور۔ خبر شائع کرنے والا ادارہ یا فرد جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے اس لیے خبر کے اس حصے کو شائع کرتا ہے جس سے پراپیگنڈا کیا جا سکے یا بعض وہ خبر کی سرخی اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ مقاصد پورے کیے جاسکیں۔

عوام چونکہ پہلے ہی مذہبی و سیاسی تقسیم کا شکار ہوتے ہیں وہ اپنے مطلب کی خبر اور سرخی کو بغیر تصدیق و توضیح شیئر کر دیتے ہیں۔ بعض دفعہ کچھ خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسان ہمدردی میں شیئر کرتا ہے لیکن تصدیق نہیں کرتا۔ کچھ خبریں بطور مثال پیش کرتا ہوں۔

کچھ دن قبل دنیا اور جیو نیوز ٹویٹر اکاؤنٹ سے خبر شائع ہوئی۔

[پرویزخٹک اور نورالحق کا منسٹر انکلیو میں سرکاری رہائش گاہیں خالی کرنے سے انکار]

خبر دیکھتے ہی گمان ہوا کہ یہ خبر اس طرح نہیں ہوگی، عمومی طور پر کوئی بھی سیاسی فرد ایسا نہیں ہو گا جو سرکاری رہائش چھوڑنے سے انکار کردے۔

بعد ازیں اس خبر سے متعلق وضاحت آ گئی کہ پرویز خٹک نے رہائش خالی کرنے کے لیے وقت مانگا ہوا ہے، انہوں نے جس مکان میں منتقل ہونا ہے وہ ابھی میسر نہیں۔ مزید براں اس طرح کے مسائل کا عموماً ارکان کابینہ کو سامنا کرنا پڑتا ہے خود پرویز خٹک کو جو سرکاری رہائش الاٹ ہوئی وہ چار ماہ بعد منتقل ہو سکے، ان سے قبل اس رہائش میں سرتاج عزیز رہائش پذیر تھے۔

[چودھری شجاعت حسین انتقال کر گئے۔ ]

فیسبک پر ان کی وفات کی خبر شائع کی گئی مگر ٹویٹر پر کوئی خبر نہ تھی۔ اس سے قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عبدالستار ایدھی سے متعلق بھی کئی بھی جعلی خبریں شائع ہوئیں۔ معروف مذہبی سکالر مولانا مکی مدرس مسجد نبوی سے متعلق بھی موت کی خبر شائع ہوئی۔ انہوں نے وڈیو بیان جاری کیا اور گزارش کی کہ ایسی خبریں تحقیق کے بغیر شیئر نہ کریں، اس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے، پوری دنیا سے لوگوں کے پیغامات اور فون موصول ہو رہے ہیں۔

ایک نوجوان اور ایک بلی کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ اس نوجوان نے بلی سے دس دن مسلسل زنا کیا ہے جس وجہ سے اس کے دونوں سوراخ مل گئے ہیں اور بلی موت و حیات کی کشمکش ہیں۔ لوگوں نے بلا سوچے سمجھے پوسٹ کو بے تحاشا شیئر کیا۔ بعد میں اس خبر کی تردید ہوئی۔ واللہ عالم اس نوجوان کے اس پوسٹ کے بعد حالت کیا ہوئی ہوگی۔

اے آر وائی نے ایک سیاستدان کے ایما پر خبر جاری کی کہ وزیراعظم ہاؤس کے سوئمنگ پول کی مرمت کے لیے ساڑھے سات کروڑ خرچ کیے گئے، شہباز مخالفین نے اس خبر کو سوشل میڈیا پر اچھالا، اے آر وائی ٹویٹر پیج نے خبر ہٹا دی مگر ابھی بھی سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہی ہے۔

کچھ جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جو سیاستدان و مذہبی گروہ ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا کی نظر کرتے ہیں جیسے معاشی اعداد و شمار یا دیگر پراپیگنڈا۔ پچھلے دنوں خبر شیئر کی گئی کہ چائنا کی فلاں (ایچ کے سنز) کمپنی گوادر سے کام چھوڑ کر واپس چلی گئی، بعد میں اس کمپنی نے تردید کی۔ عمران خان نے کہا مولانا فضل الرحمان نے امریکہ کو کہا کہ مجھے اقتدار میں لاؤ میں آپ کی خدمت کروں گا، وزیراعظم نے چینی کی قیمت بڑھا دی، بلاول بھٹو کی مسجد نبوی میں وڈیو کو ایڈٹ کر کے اس میں نعرے ڈال کر شیئر کی گئی، وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے سرکاری خرچہ پر حج کیا۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔

خوفناک بات یہ ہے کہ سیاسی لیڈرز اور نامور صحافی بھی پراپیگنڈا کا شکار ہوتے ہیں اور جھوٹی خبروں کو شیئر کرتے ہیں، ہمارے علاقہ میں ایک معزز مذہبی شخصیت جو تین دفعہ رکن قومی اسمبلی بھی رہے کے بارے میں مخالفین نے مشہور کر رکھا تھا کہ 80 سال کی عمر میں انہوں نے 18 سال کی لڑکی سے نکاح کیا ہے۔ عام فرد کو چاہیے کہ وہ خبر شیئر کرنے سے پہلے کچھ نہ کچھ تصدیق کر لے یا فوری شیئر نہ کرے کچھ گھنٹوں میں خود ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اصل خبر کیا تھی اور جعلی خبر کیا۔ خبر کی تصدیق شرعی اور سماجی ذمہ داری بھی ہے اور شیئر کرنے والا سبکی سے بھی بچ جاتا ہے، سیاسی و مذہبی اختلاف ضرور رکھیں لیکن جھوٹے پراپیگنڈا کا حصہ نہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).