جلد انتخابات کس کے مفاد میں، اور کس کو اس کا نقصان ہے؟

احمد اعجاز - صحافی


پی ٹی آئی، پشاور جلسہ، خواتین

اس وقت پاکستان کو دو نوعیت کے شدید مسائل کا سامنا ہے، ایک سیاسی عدم استحکام اور دوسرا معاشی بحران۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اتحادی جماعتوں کی تشکیل پانے والی حکومت اور بعض سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ سیاسی معاملات ہموار طریقے سے آگے کی طرف بڑھیں گے، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

کچھ سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق عمران خان کا یہ کہنا ’حکومت سے باہر آ کر زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا‘، بظاہر درست ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اِن کے فوری انتخابات کے مطالبے کی بدولت سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔

سیاسی عدم استحکام میں مزید شدت معاشی بحران نے پیدا کر دی ہے۔ اس وقت ڈالر اُونچی اُڑان میں ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور میاں شہباز شریف کی حکومت سخت فیصلے لینے سے گھبرا رہی ہے۔

حالانکہ میاں شہباز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی، لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اظہارکیا تھا کہ ملک کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے، اس کے لیے غیر معمولی فیصلے کرنا ہوں گے مگر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس طرح کے فیصلے تاحال نہیں ہوسکے ہیں۔

بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا مسلم لیگ ن کو ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کا اسٹیک سب سے زیادہ ہے، اس لیے مسلم لیگ ن گھبراہٹ اور تذبذب کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔

سیاسی مبصر پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ ن زیادہ پریشان ہے۔

’پریشانی کی ایک وجہ، عمران خان کو ملنے والی عوامی پذیرائی بھی ہے۔ اگر الیکشن جلدی ہو جاتے ہیں تو اتحادی حکومت میں شامل پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم و دیگر جماعتوں کو زیادہ خطرہ نہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی پوزیشن برقرار رکھے گی اور اگر الیکشن شفاف ہوتے ہیں تو ایم کیو ایم بھی کراچی میں آٹھ نو سیٹیں نکال لے گی۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف فوری انتخابات کیوں چاہتی ہے؟

جیسے ہی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا اِن کی جانب سے فوری انتخابات کا مطالبہ پوری شدت کے ساتھ آیا۔ عمران خان نے وزیرِ اعظم ہاؤس سے نکلتے ہی عوامی جلسوں کا رُخ کیا اور اب تک کئی شہروں میں جلسے ہوچکے ہیں اور مزید سلسلہ جاری ہے۔

مزید براں یہ اپنے کارکنوں کو اسلام آباد آنے کے لیے بھی تیار کر چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف، موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور اِن کے اقتدار کو اپنے اقتدار کے خلاف سازش کا شاخسانہ قرار دیتی ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے فوری انتخابات کے مطالبے کو بھی مختلف انداز سے دیکھا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت کا جس انداز سے خاتمہ ہوا، اس سے عوام کے اندر ہمدردی کا عنصر پیدا ہوا اور عمران خان نے حکومت کے خاتمے کو اندرونی و بیرونی سازش قرار دے کر یہ آواز نیچے تک پہنچا دی، لہٰذا اگر اب جلد انتخابات ہوتے ہیں تو اس جماعت کو عوام کی تائید کی صورت سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔

جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان جلد انتخابات کی صورت مبینہ طور پر ’سلیکشن‘ چاہتے ہیں۔ اس پہلو کا اظہار بلاول بھٹو زرداری کر چکے ہیں۔

15 مئی کو کراچی ایئرپورٹ پر استقبالی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا ’سلیکٹڈ دوبارہ سلیکشن کے لیے فوری انتخابات چاہتا ہے۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر سے جب یہ سوال پوچھا گیا ’پاکستان تحریکِ انصاف فوری انتخابات کا انعقاد محض اس لیے چاہتی ہے کہ اس کو عوام کی بھرپور تائید کا احساس ہوچکا ہے؟‘، تو اِن کا کہنا ہے ’فوری انتخابات کے انعقاد کا ہمارا مطالبہ محض اس بنیاد پر نہیں کہ ہم جیت جائیں گے، بلکہ ہم فوری انتخابات اس لیے چاہتے ہیں کہ غیر جمہوری طریقے سے آئی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے عوام میں جا کر عوامی فیصلہ چاہتے ہیں۔‘

جب اِن سے یہ پوچھا گیا کہ سیاسی جماعتیں موجودہ معاشی بحران کا حل نکالے بغیر اگلے انتخابات کی طرف بڑھتی ہیں تو معاشی بحران دوچند نہیں ہوجائے گا؟‘ تو پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس وقت ساری فیصلہ سازی منجمد ہے اور حکومت سے پیٹرول کی قیمت کا فیصلہ تک نہیں ہو رہا۔

’لہٰذا ہمارا خیال ہے کہ نگران حکومت، موجودہ غیر جمہوری حکومت سے زیادہ بہتر فیصلے کرسکے گی۔‘

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو پاکستان تحریکِ انصاف بڑا معرکہ مار سکتی ہے اور میرا خیال ہے کہ دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ جیت کو ممکن بنا سکتی ہے۔‘

عمران خان، شیخ رشید
’عمران خان اگر سنگاپور کے وزیر اعظم کے بجائے شیخ رشید کی کتاب پڑھ لیتے تو سیاست جلدی سیکھ جاتے‘

مسلم لیگ ن کے لیے انتخابات کے انعقاد کا مناسب وقت کون سا ہوسکتا ہے؟

مسلم لیگ ن معاشی فیصلوں اور انتخابات کے مناسب وقت کے بیچ میں کہیں پھنسی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

اگر یہ کچھ معاشی فیصلے ایسے کرتی ہے، جس سے عوام کی معیشت پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں تو سابق حکومت کی معاشی بدحالی کا ملبہ اِن کے اُوپر آجائے گا۔ یہی احساس پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے تذبذب کا شکار کیے ہوئے ہے۔

ایسے ناگوار فیصلوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ فوری انتخابات کی طرف بڑھا جائے، مگر اس ضمن میں بھی مسلم لیگ ن متذبذب ہے۔

گذشتہ دِنوں جب خواجہ آصف نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا ’ممکن ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل ہی انتخابات کرا دیں‘ تو آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا تھا ’میاں صاحب کو سمجھا دیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بعد الیکشن میں جائیں گے۔‘

انتخابات کا انعقاد کب ہونا چاہیے،اس ضمن میں مسلم لیگ ن جماعتی سطح پر تقسیم کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

شہباز شریف کے تاثر سے لگتا ہے کہ وہ معاشی سطح پر قدرے استحکام لا کر سال بھر بعد عوام کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ اِن کی حکومت نے آکر ملک کو معاشی بدحالی سے نکال دیا ہے، اس احساس کے ساتھ جب یہ الیکشن میں اُتریں گے تو عوامی سطح پر اِن کی جماعت کو پذیرائی ملے گی۔

جبکہ بعض مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ جلد الیکشن کی طرف جانا چاہیے اور گذشتہ حکومت کا ملبہ اپنے سَر نہیں لینا چاہیے۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے مسلم لیگ ن کنفیوز ہو چکی ہے۔

’ان ہاؤس چینج پیپلز پارٹی کا فیصلہ تھا، زرداری نے نواز شریف کو اس پر قائل کیا۔ نوازشریف نے اپنی پارٹی کو اِن ہاؤس چینج کی اجازت دی۔ ان جماعتوں کا خیال تھا کہ ابھی انتخابات کو لگ بھگ ڈیڑھ سال کا عرصہ بچا ہوا ہے، عمران خان اپنی پسند کے فوجی آفیسر کو آگے لانا چاہتے ہیں، جو مبینہ طور پر اِن کی الیکشن میں فتح میں کردار ادا کرے گا۔ مگر میرے نزدیک یہ خام خیالی تھی۔ یہاں کل کیا ہوگا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘

جب مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما پرویز رشید سے یہ سوال کیا گیا کہ مسلم لیگ ن فیصلہ سازی کے ضمن میں تذبذب کا شکار کیوں ہے، تو اِن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن قطعی طورپر تذبذب کا شکار نہیں، یہ اپنے مؤقف اور سوچ میں بہت واضح ہے۔

’حکومت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک جس نے مختصر عرصے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے جبکہ دوسری طرز کی حکومت نے مختصر عرصے کے لیے کام نہیں کرنا ہوتا بلکہ ایک فریضہ سرانجام دینا ہوتا ہے۔ ہمارا تذبذب نہیں بلکہ پاکستان کے مقتدر اداروں سے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے سوال ہے کہ وہ ہمیں نگران حکومت سمجھتے ہیں؟‘

’ہم نگران حکومت نہیں، ہم نے انتخابات میں جانا ہے۔ ہم سخت فیصلوں کے بعد 2023 تک کام کرنا چاہتے ہیں۔ سخت فیصلوں سے مقبولیت میں فرق پڑے گا، جس کو بہتر گورننس اور معاملات سنبھال کر واپس لیا جاسکتا ہے۔ ہم یہ تقاضا کرتے ہیں کہ سخت فیصلوں کے بعد وہ تعاون دیں جس سے سیاسی استحکام رہے اور ہماری حکومت کو 2023 کا وقت مل پائے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ سارا بوجھ مسلم لیگ ن پر نہ رکھا جائے، اپنے اپنے بوجھ کو سب ادارے اور جماعتیں بھی محسوس کریں۔‘

وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف، لندن میں اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد پاکستان آکر اتحادیوں سے مشاورت کے سلسلے کو آگے بڑھائے ہوئے ہیں۔ یہ سخت معاشی فیصلوں اور انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں آصف علی زرداری، فضل الرحمن، خالد مقبول صدیقی، اختر مینگل سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔

وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد لمحہ موجود تک، یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن معاشی میدان میں اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر فیصلے کرے گی کہ عوامی سطح پر ناپسندیدگی کا سارا ملبہ اکیلے اِن پر نہ گرے۔

وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم آتے ہی تیل کی قیمتیں بڑھا دیتے تو عمران خان عوام سے کہتے کہ دیکھو! تمہارا خون چوسنے والی حکومت آچکی ہے۔

تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں ’میاں شہباز شریف کی حکومت کو اس وقت بڑا چیلنج معاشی ہے۔ معاشی بدحالی سے نکلنا ہی اِن کا اصل امتحان ہے۔ اگر یہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سیاسی سطح پر بھی کامیاب ہوجائیں گے۔ اس وقت حکومت پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے خوف زَدہ ہے، خوف کی وجہ ہے کہ ایسا کرنے سے اِن کی مقبولیت کا گراف نیچے گر جائے گا۔ اس لیے یہ معاشی فیصلوں سے اجتناب کر رہے ہیں۔‘

مسلم لیگ ن معاشی فیصلوں اور انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے متذبذب ہے؟ اس ضمن میں ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے ’مسلم لیگ ن عوام کو اور آئی ایم ایف دونوں کو بہ یک وقت خوش کرنا چاہتی ہے، مگر ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کہتی ہے کہ سبسڈی ختم کردیں۔ اگر یہ سبسڈی ختم نہیں کرتے تو خزانہ خالی ہو جائے گا۔ اِن کی پالیسی یہ ہوسکتی ہے کہ عمران خان کو جیل میں ڈالو، مقدمات کرو اور امریکہ سے مدد لو۔‘

پاکستان پیپلزپارٹی جلد انتخابات کی خواہاں کیوں نہیں؟

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پاکستان تحریکِ انصاف کو اقتدار سے محروم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یوں نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد دونوں جماعتوں کے لیے چیلنجز بھی بڑے ہیں۔

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کی نسبت اپنے سیاسی مؤقف کے اظہار میں کسی نوع کے تذبذب سے پاک دکھائی دیتی ہے۔

انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پہلے اصلاحاتی عمل کو مکمل کیا جائے، بعد میں الیکشن کی جانب جایا جائے۔ کیا فوری انتخابات کی بجائے انتخابی اصلاحات و قانون سازی ہی پیپلز پارٹی کے پیش نظر ہے یا وجوہات دیگر ہیں؟

اس سوال کے جواب میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ کہتے ہیں ’پاکستان پیپلز پارٹی کو جلد انتخابات کے انعقاد کا کوئی خوف نہیں۔ عمران خان نے جو ملک کی معاشی و دیگر شعبوں کی تباہی کی ہے، اُس تباہی کا حل انتخابات ہی ہیں،مگر انتخابات سے قبل لوازمات ضروری ہیں۔ انتخابات کے ضمن میں الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ انتخابی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ پہلے یہ ضروری لوازمات کو پورا کیا جائے پھر بے شک اکتوبر تک انتخابات کی طرف جایا جائے۔‘

شہباز، نواز

الیکشن جیتنے کے لیے جلسے کتنا بڑا معیار ہیں؟

پاکستان تحریکِ انصاف کو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد فی الوقت جو عوامی تائید جلسوں کی صورت حاصل ہو رہی ہے، اس کی بنیاد پر یہ انتخابی معرکہ مارکہ سر انجام دے پائے گی؟

اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں ’پاکستان میں روایت ہے کہ جب تک الیکشن کا اعلان نہ ہوجائے اور انتخابی مہم شروع نہ ہوجائے، اُس وقت تک کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کون آگے ہے اور کون پیچھے؟’

اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عوامی جلسے کر رہے ہیں۔ اِن کے مقابلے میں دیگر بڑی سیاسی جماعتیں جلسے نہیں کر رہیں، لہٰذا اس وقت جلسوں کی مَد میں ساری تحسین پر مبنیہ بحث عمران خان کے جلسے ہی سمیٹ رہے ہیں۔

جس روز فیصل آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کا جلسہ تھا، اُسی روز گجرات میں مسلم لیگ ن نے جلسہ کیا، سماجی سطح پر دونوں جلسوں کو بڑے جلسے قرار دیا گیا اور پہلی بار جلسوں کے حوالے سے بحث بھی تقسیم ہوئی، جہاں عمران خان کے جلسہ کو سراہا گیا، وہاں مریم کے جلسہ کو بھی پذیرائی ملی۔

جب مسلم لیگ ن انتخابی مہم میں اُترے گی اور جلسے کرے گی اور دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری اور دیگر جماعتوں کے رہنما بھی جلسے کریں گے تو اُس وقت موجودہ بحث کا رُخ تبدیل ہوچکا ہوگا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کو پنجاب کی سطح پر جلسے جلوسوں میں مریم نواز شریف کی صورت کتنا بڑا چیلنج ہوسکتا ہے؟

اس حوالے سے پروفیسر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے ’عمران خان اور مریم نواز دونوں ہی عوام کے اندر مقبول ہیں۔ دونوں ہی سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ سخت زبان کا استعمال ہمارے ہاں زیادہ مقبولیت کھینچتا ہے۔ پھر یہ کہ مریم نواز شریف، شبہاز شریف کی نسبت زیادہ عوامی جلسے کرسکتی ہیں۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر کہتے ہیں ’پاکستان تحریکِ انصاف 2013 والی جماعت نہیں ہے۔ اب یہ انتخابات لڑنے اور جیتنے کا تجربہ حاصل کر چکی ہے۔ اب حالات بہت مختلف ہو چکے ہیں۔ ہمارے لوگ تین تین چار چار بار الیکشن لڑ چکے ہیں، علاوہ ازیں تگڑے اُمیدوار بھی ہمارے پاس ہیں۔‘

انتخابات جیتنے کی سائنس کو اگر بروئے کار نہیں لایا جاتا اور حلقے کی سیاست میں الیکٹ ایبلز پر انحصار نہیں کیا جاتا تو پاکستان تحریکِ انصاف کیوں کر کامیابی سمیٹ سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’حلقے کی سیاست کا رنگ بدل چکا ہے۔ تاریخ ہمیشہ خود کو نہیں دہراتی۔ حلقے میں روایتی سیاست کا طریقہ کار کمزور پڑ چکا ہے۔ غریب سے غریب آدمی کے پاس بھی موبائل فون ہے اور اُس کو معلوم ہے کہ ملکی سیاست میں کیا ہو رہا ہے، نیز سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگ اپنے تئیں فیصلہ نہیں کرسکتے؟ یہ خیال درست نہیں۔ باقی جماعتوں کو یہی خوف ہے کہ اگر فوری انتخابات کی طرف جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کو فائدہ ہوگا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments