پیشنٹ پرائیویسی


صبح صبح کا وقت تھا ہاسپٹل میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی ڈاکٹر اپنی ڈیوٹیاں نبھانے کے لیے کمروں کی طرف جا رہے تھے مریضوں کی لائنیں لگی ہوئی تھی ناموں اور نمبروں کی آوازیں گونج رہی تھی ایسے میں کا ؤنٹر پر براجمان ڈیوٹی پر مامور افسر نے مسز عبید کی آواز لگائی اور کہا ”یہ مریض باہر آ جائیں تو آپ اندر چلی جائیے گا“ ۔ ”جی اچھا“ ! کہتے ہوئے وہ سامنے کرسی پر انتظار میں بیٹھ گئی جیسے ہی مریض کمرہ سے باہر نکلی وہ اندر چلی گئی مگر اندر دوسری مریض بیٹھی ہوئی تھی ڈاکٹر نے ایک مریض کو جونیئر ڈاکٹر کی طرف بھیجا اور دوسرے کو اپنی جانب کر کے خیر خیریت پوچھنے لگے۔

ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پر پرائیویسی نام کی کسی چیز کا تصور نہیں کیا جاتا یہاں مشترکہ خاندانی نظام میں میاں، بیوی کی نجی معاملات میں ٹانگ اڑانا عمومی بات ہے حد تو یہ ہے کہ بیڈ روم لائف تک کے بارے میں قیاس کرنا، سب کے سامنے کوئی طنز کر دینا عام بات ہے ان معاملات کے باعث لڑکیاں شدید قسم کی ذہنی اذیت سے دوچار ہوتی ہیں اور اس کے باعث فی الوقت معاشرہ میں ذہنی بیماریاں انتہائی تیزی سے جنم لے رہی ہے اس تنگ قسم کے ماحول سے جنگ لڑنے کے بعد جب وہ ڈاکٹر کے ہاں پہنچتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیشنٹ پرائیویسی نام کی کوئی چیز یہاں موجود ہی نہیں یہاں ایک کمرے میں ایک شادی جوڑا موجود ہوتا اور دوسرا جوڑا آ کر اپنی انتہائی نجی معاملات بہت آرام سے ڈاکٹر کو بتا دیتا ہے۔

سب سے اہم بات یہاں پر یہ ہے کہ کیوں پیشنٹ پرائیویسی کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیوں پیشنٹ بھی ڈاکٹر سے اس بات کا مطالبہ نہیں کرتا کہ ڈاکٹر صاحب میں آپ کا مریض ہوں مجھے آپ سے علاج کروانا ہے اس لیے میں آپ کو اپنی ہسٹری بتانے کا پابند ہوں مگر میرے بارے میں ہر ایرے غیرے کو پتا ہو میں ایسا نہیں چاہتا مثال کے طور پر اگر ایک عورت کو کچھ مسائل خاص الخاص خواتین والے ہیں تو وہ کیوں اس بات کا ڈاکٹر سے مطالبہ نہیں کرتی کہ مجھے اپنے کیس کے سلسلہ میں آپ کو اپنے دیگر مسائل کے بارے میں بتانا پڑے گا کیونکہ دوائیوں کے آپس میں کلیش ہو جانے کے امکانات ہیں اس معاملے میں میں مجبور ہو مگر کوئی اور مرد بھی میرے ان تمام مسائل سے آگاہ ہو میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی اس لیے برائے مہربانی میرا معائنہ دیگر پیشنٹ کی موجودگی میں نہیں کیا جائے۔

پاکستانی معاشرہ میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پیشنٹ پرائیویسی کو فروغ دیا جائے یہاں ڈاکٹر پہلے ہی جونیئر ڈاکٹر کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کمرہ بڑا ہو تو دو ، تین مریض آسانی سے گھسا لیے جاتے ہیں جو کہ انتہائی ناگوار ہوتا ہے اور انسان اپنے بیماری سے زیادہ کانوں میں پڑنے والی دیگر بیماریوں کا سن کر کوفت اور پریشانی کا شکار ہو رہا ہوتا ہے اور خفت کا بھی اس لیے ہم سب کو مل کر اس بات کو فروغ دینا کہ ڈاکٹر کہ پاس جاکر اس بات پر زور دیا جائے کہ معائنہ والے کمرے میں ڈاکٹر کے ساتھ ایک پیشنٹ اور ایک تیماردار والی پالیسی کو اپنایا جائے کیونکہ یہ انتہائی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments