پاکستان میں سیاسی حکومتوں کی ناکامی کی وجوہات


یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سول سپریمیسی کا نہ ہونا ہے۔ کسی بھی ملک میں اگر عوامی نمائندے پالیسیاں بنانے اور فیصلے کرنے کا اختیار نہ رکھتے ہوں تو وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا، اس میں سیاسی استحکام نہیں آ سکتا، نہ ہی پالیسیوں میں تسلسل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ملکی یا غیر ملکی سرمایہ دار اس ملک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کسی بھی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیتا ہے او ر سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ اداروں کا آئین میں طے کردہ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی امور میں دلچسپی اور سیاسی معاملات میں مداخلت ہوتا ہے۔

پاکستان میں حکومتوں کے مدت پوری نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ بھی اداروں کی سیاست میں مداخلت ہے۔ جنرل ضیاء کی طیارہ حادثہ میں وفات کے بعد بے نظیر کی حکومت آئی لیکن وہ مدت پوری نہ کر سکی جس کی وجہ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ ان کے تعلقات کی خرابی تھی۔ نواز شریف آئے تو وہ بھی آرمی چیف کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی وجہ سے چلے گئے۔ بے نظیر پھر آئیں، انہوں نے صدر بھی اپنا بنایا لیکن ان کے اپنے ہی بنائے گئے صدر فاروق لغاری کے ساتھ ان کے تعلقات خراب کر دیے گئے اور ان کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

نواز شریف انتخابات جیت کر دوبارہ آئے لیکن ان کے تعلقات ایک دفعہ پھر فوج سے خراب ہوئے یا خراب کر دیے گئے تو ان کی حکومت مشکلات کا شکار ہو گئی۔ انہوں نے پرویز مشرف کو برطرف کیا اور ان کا یہ فیصلہ فوج نے قبول نہ کیا اور پرویز مشرف نے بغاوت کر کے اقتدار سنبھال لیا۔ پھر وہ گیارہ سال اس ملک پر قابض رہے۔ اس عرصے کے دوران پرویز مشرف کی حکومت نے دو اہم کام کیے۔ ایک تو سیاست دانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنائے جو زیادہ تر سیاسی مقدمات تھے اور دوسرا نواز شریف سمیت کئی سیاست دانوں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی اور انہیں غدار قرار دیا گیا۔

پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل جو خاص طور پر پی ٹی آئی کی حامی ہے یہ وہ ہی نوجوان نسل ہے جس نے پرویز مشرف کے دور میں شعور کی آنکھ کھولی اور انہیں سیاست کی سوجھ بوجھ ہوئی۔ اس نوجوان نسل نے مطالعہ پاکستان کے علاوہ نہ کوئی تاریخ کی کتاب پڑھی ہے اور نہ ہی سیاست کی۔ انہیں جغرافیہ اور معیشت کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ ان میں کسی پروپیگنڈے کے مقابلے میں تحقیق کا رجحان بھی نہیں۔ انہوں نے پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے پروپیگنڈے کے مطابق تمام سیاست دانوں کو چور، ڈاکو اور غدار سمجھ لیا، حتیٰ کہ انہوں نے سیاست کو ہی گالی بنا کر رکھ دیا۔

ایسے میں مقتدر حلقوں نے عمران خان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ میڈیا، سیاسی علماء سمیت اہم لوگوں کو عمران خان کا حامی بنایا گیا اور انہوں نے عمران خان کو صادق اور آمین بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا۔ وہ نوجوان نسل جس کے دماغ میں پہلے ہی بٹھا دیا گیا تھا کہ سیاست دان غدار اور چور ہیں جب انہیں یہ بتایا گیا بقیہ تمام سیاست دان چور اور ڈاکو ہیں مگر ایک سیاست دان ایسا بھی ہے جو صادق اور آمین ہے تو یہ نوجوان نسل عمران خان کی طرف بڑھ گئی۔

اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ سیاست دانوں کی کردار کشی جنرل یحییٰ، جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں بھی کی گئی مگر اس کا اثر اس لیے زیادہ نہ ہوا کیونکہ اس وقت میڈیا اتنا عام نہیں تھا۔ پہلے جنرلز کو تو صرف ریڈیو اور اخبارات کی سہولت میسر تھی۔ ایوب خان اور جنرل ضیاء کو ٹی وی کی سہولت بھی مل گئی مگر ایک سرکاری ٹی وی سیاست دانوں کے خلاف پروپیگنڈا اس قدر نہ کر سکا جس سے عام لوگ سیاست دانوں سے زیادہ متنفر ہوتے۔

یہی وجہ ہے کہ دونوں کے ادوار میں جیسے ہی سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں لوگوں نے گرم جوشی سے اس میں حصہ لیا تاہم جنرل مشرف کے دور میں سیاست دانوں کے خلاف پروپیگنڈا زیادہ کامیاب رہا۔ ایک تو مشرف کے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز آ گئے اور خبر کے حصول اور اسے سب سے پہلے نشر کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ دوسرا اب لوگوں کے حالات ایسے تھے کہ وہ ٹی وی اور کیبل کے اخراجات ادا کر سکتے تھے۔ پھر مشرف کے دو ر میں ہی سوشل میڈیا بھی مضبوط ہوا۔

ٹو جی سے فور جی کا سفر بھی طے ہوا، مشرف نے فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے کو زیادہ موثر بنایا اور اس ادارے نے سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی مدد سے سیاست دانوں کے خلاف کامیاب اور اثر انگیز پروپیگنڈا کیا جس سے عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل سیاست دانوں سے بری طرح متنفر کی گئی۔ سیاست دانوں پر صرف کرپشن کے الزامات ہی عائد نہیں کیے گئے بلکہ انہیں غدار بھی قرار دیا جاتا رہا۔ نواز شریف پر تو یہاں تک الزام عائد کیا گیا کہ اس کی فیکٹریوں میں بھارتی شہری ملازم ہیں اور وہ ہی جاسوسی میں ملوث بھی ہیں۔

پروپیگنڈا اتنا جاندار تھا کہ کسی عقل کے دشمن نے یہ بھی نہ سوچا کہ بھارتی روپیہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں بہت مستحکم ہے۔ ایک پاکستانی روپیہ 0.39 بھارتی روپیہ بنتا ہے تو اتنا بیوقوف کون سا بھارتی شہری ہو گا جو کسی ایسے ملک میں کام کرے جس کی کرنسی اس کے اپنے ملک کے مقابلے میں ڈی ویلیو ہو۔ تاہم یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو ضبط تحریر میں آ گئی ہم مزید آگے بڑھتے ہیں۔

سیاست دانوں سے نفرت بڑھانے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ ملک میں فوجی آمریتوں کا راستہ ہموار رکھا جائے تاکہ کسی بھی فوجی حکمران کو عوام سر آنکھوں پر بٹھائے رکھے مگر برا ہو نواز شریف اور آصف زرداری کا جنہوں نے اٹھارہویں اور انیسویں ترامیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کا راستہ ہموار کیا اور مارشل لاء کے خطرات کو کافی حد تک روک لیا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ کٹھ پتلی حکمران لائے جو ان کی مرضی سے خارجہ اور داخلہ کی پالیسیاں بنائے۔

ہمارے عمران خان کو چونکہ وزیراعظم بننا تھا تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی بننے پر راضی ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے تمام سوشل میڈیا پیجز، عدالتوں میں موجود ان کے سلیپنگ سیلز متحرک ہوئے اور عمران خان کو فرشتہ بنا دیا گیا۔ عدالتوں نے زرداری اور نواز شریف کو ایک طرح سے انتخابات سے دور ر اور اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے ان کے خلاف اور عمران خان کے حق میں فیصلے دیے۔ حتیٰ کہ عمران خان کو صادق اور آمین بھی قرار دے دیا گیا۔

عمران خان نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد حکمرانی بالکل ایسے کی جیسے اسٹیبلشمنٹ نے چاہا۔ ان کی مرضی کے مطابق چلنے کی وجہ سے عمران خان کو آئی ایم ایف بھی جانا پڑا، ملک پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھا، ترقیاتی کام بھی ٹھپ ہوئے، دفاعی بجٹ بھی بڑھا اور مہنگائی کا طوفان بھی آیا لیکن پھر کچھ وجوہات کی بنیاد پر جن کا تذکرہ خود عمران خان، فواد چوہدری اور شیخ رشید بارہا کرچکے ہیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں تعلقات خراب ہو گئے۔ جیسے ہی تعلقات خراب ہوئے، اسٹیبلشمنٹ نے زرداری اور شہباز شریف سے تعلقات بڑھائے اور ان کو یقین دہانی کرائی کہ پہلے جیسی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی آپ اقتدار سنبھال لیں۔

نواز شریف ایسا کرنے پر بالکل تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ عمران خان کی ناؤ خود ہی ڈوب رہی ہے اگر ہم نے کوئی قدم اٹھایا تو سیاسی شہید بن کر فائدہ اٹھائے گا مگر زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کا خیال تھا کہ اگر عمران خان کو ایک سال اور دیا گیا تو وہ انتخابی اصلاحات اپنی مرضی کی کر لے گا۔ اور سیز پاکستانیوں کو الیکٹرانک ووٹنگ کا حق دے دے گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں رائج کر لے گا اور انٹرنیٹ دھاندلی سے دوبارہ اقتدار میں آ جائے گا۔ اس لیے تینوں نے نواز شریف کو قائل کر لیا۔

اس بات پر بحث پھر کبھی کریں گے کہ موجودہ مخلوط حکومت کو اب اپنی کامیابی کے لیے کیا کچھ کرنا ہو گا لیکن ابھی اپنے موضوع پر رہتے ہوئے ہم اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہیں گے کہ سیاسی حکومتوں کی ناکامی کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہوتی ہے۔

پاکستان کو سول سپریمیسی کی اشد ضرورت ہے مگر یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی یہاں کچھ سیاسی جماعتیں سول سپریمیسی کی جدوجہد کر رہی ہوتی ہیں تو اسی وقت کچھ جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی ہوتی ہیں۔ آپ حالیہ چند برسوں کی مثال لے لیں۔ جب نون لیگ، پی پی پی اور کچھ دیگر جماعتیں سول سپریمیسی کی جدوجہد کر رہی تھیں تو پی ٹی آئی اور اس کی ہم خیال کچھ جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کا بچہ جمہورا تھیں۔ آج جب پی ٹی آئی اور چند دیگر جماعتیں سول سپریمیسی کی کوشش میں مصروف ہیں تو نون لیگ، پی پی پی اور ان کی ہم خیال چند جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ایسے تو سول سپریمیسی کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ سب عہد کریں کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ نہیں دیں گی۔

فوج کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اب فوج سیاست سے کنارہ کش ہو چکی ہے اور اس نے سیاست دانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے اور بادی النظر میں سچ ہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آئندہ آنے والی سیاسی حکومتیں ناکام نہیں ہوں گی اور وہ اپنی مرضی سے فیصلے کر سکیں گی جس سے یقینی طور پر ملک میں سیاسی استحکام آئے گا، سرمایہ کار آئیں گے، معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی اور عوام ملک ترقی کرے گا لیکن اگر اب بھی یہ سچ نہیں اور حکومتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ہی رحم و کرم پر رہنا ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments