ایسے ڈر جو ہمیں کھا جائیں گے!


کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو عمر بھر ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ ان سے میں ایک ڈر بھی ہے۔ ہم پاکستانی بنیادی طور پر ڈرے ہوئے لوگ ہیں اور وہ ڈر جو ہمارے ساتھ بچپن میں جوڑے جاتے ہیں، وہ پھر تاحیات ہمارے ساتھ چلتے ہیں۔ حالانکہ عمر اور وقت کے ساتھ ہر چیز میں تغیر و تبدل ہوتا ہے۔

بچپن میں جب ہمارے ہاتھ میں پہلی بار سائیکل تھمایا جاتا تھا تو سب سے پہلے یہ بات کان میں پروئی جاتی تھی کہ بیٹے گرنا مت۔ اب یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ بھئی اگر سائیکل چلانی ہے تو گرنا تو لازمی پڑے گا۔ بنا گرے سائیکل چلانا ناممکن سی بات ہے۔ اس کی جگہ یہ بھی تو کہا جا سکتا تھا نا کہ بیٹے جب گرو گے تو خود کو ہوش میں رکھنا۔ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ گرنا لازم ہے۔ بس گرنے کے بعد جو کرنا اس کا انحصار ہمارے پر ہے۔

پڑھائی کی بات ہو جائے؟ کر لیتے ہیں یار تھوڑی سی۔ ہم بچوں کو غیر نصابی کتابیں پڑھنے نہیں دیتے کہ کہیں اس کے سکول کے رزلٹ کارڈز میں اے پلس کی کیٹگری بر قرار نہ رہی تو۔ اے پلس نہیں آئے گا تو اسے اچھی جاب نہیں ملے گی۔ اچھی جاب نہ ملی تو اچھا گھر کیسے چلے گا۔ اتنا کچھ دو تین لمحوں کے اندر ہی سوچ لیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بچہ غیر نصابی کتابوں میں کچھ ایسا پڑھ بیٹھے کہ ایک کامیاب ترین بزنس مین بن جائے۔ اپنے گھر کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کے گھروں کا چولہا بھی جلائیں۔

ہو سکتا کہ دنیا کو ایک بہت بڑا ادیب مل جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا شاعر پیدا ہو، جو اپنی شاعری سے معاشرے کو بدل کر رکھ دیں۔ ہو سکتا ہے وہ اپنی کہانیوں کے ذریعے لوگوں کی زندگی کی وہ گتھیاں سلجھا دیں جو ابھی تک کوئی نہ سلجھا سکا۔ باقی جتنی نشوونما ہماری یہ روایتی تعلیمی نظام کر رہا ہے۔ اس سے ہر کوئی واقف ہے۔

یہی حال پھر باقی شعبوں کے لیے بھی ہے۔ آج کے اس دور میں جب ہر کسی کو پتا ہے کہ ایکٹرز اور میوزیشنز لاکھوں کما رہے ہیں۔ معاشرہ انھیں ایک وقار دیتا ہے، ایک عزت دیتا ہے۔ ان لوگوں کا اپنا ہی ایک زندگی گزارنے کا سویگ ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی بچہ گٹار لینے کی فرمائش یا پھر گانا گانے کی کوشش کرتا ہے یا پھر اداکاری کرنے کی کوشش کرتا ہے، سب سے پہلے گھر والے اس کے ذہن میں ڈر ڈالتے ہیں۔ کچھ نہیں رکھا ان کاموں میں۔

یہ کیا تم نے کیا کنجر خانہ شروع کر دیا۔ یہ بھاشن دے کر تھوڑی دیر بعد ریموٹ ہاتھ میں لے کر ٹی وی پر اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھتے ہیں۔ ان کے گانوں کی پلے لسٹ چیک کی جائے تو شاید ہی کوئی نیا گانا ہو، جو ان کے موبائل میں نہ ہو۔ بھئی اگر اتنا ہی یہ کنجرخانہ ہے تو کیوں دیکھتے اور سنتے ہو۔ اصل میں ہم کنجر خانے کا نام دے کر اپنے اس ڈر کو چھپا رہے ہوتے ہیں کہ اگر بیٹے یا بیٹی کے ساتھ ایسا ویسا ہو گیا۔ ہمارے تمام خواب پڑھائی سے ہی شروع ہو کر پڑھائی پر ہی ختم ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں بزنس پر۔ ابھی گھر میں بزنس کی بات شروع ہوتی ہے کہ سب سے پہلے نقصانات بتائے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بزنس شروع کرنے سے پہلے رسک فیکٹر دیکھنا پڑتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں بھائی سے لے کر ابو تک سارے الگ الگ رسک فیکٹر بتاتے ہیں، جن کا اس بزنس سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اصل میں ان کے ذہن میں کہیں نا کہیں وہ ڈر ہے جو کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے پردادا صاحب نے بزنس ہی وہاں شروع کیا ہو جہاں مارکیٹ نہ ہو۔ اب وہاں کا تجربہ اٹھا کر یہاں پر تو نہیں نا لگایا جا سکتا۔ اب حالات سراسر بدل چکے ہیں۔ اب تو سارے کے سارے آرڈرز بھی موبائل پر وصول کیے جا سکتے ہیں۔

بزنس نہ شروع کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں سکیورٹی نہیں۔ کیا پتا کہ اس مہینے پیسے آئیں نہ آئیں۔ فاقوں کا ڈر ہمیں وہاں جا کر پھینکتا ہے جہاں کے لیے ہم بنے ہی نہیں ہوتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بس پینتیس چالیس ہزار ہر مہینے آتے رہے ہیں اور ہم یہ زندگی یوں ہی بنا کچھ کیے گزار کر چلے جائیں۔ اوپر سے پاکستانیوں کے سرکاری نوکریوں سے اس قدر وابستگی ہے کہ ایک طرف ایلون مسک اور دوسری طرف ایک سرکاری کلرک کو کھڑا کر دیا جائے تو یہ لوگ کہیں گے کہ سرکاری کلرک ایلون مسک سے بہتر ہے۔ کم از کم پکی نوکری تو کرتا ہے۔ آخر پر پینشن بھی آئے گا۔ ایلون مسک کا کیا پتا کہ اگلے مہینے پیسے آئیں نہ آئیں۔

کل ملا کر بات ہے یہ میرے یار کہ ہماری چاروں طرف بس ڈر ہی ڈر ہے۔ کہیں ہمارے ساتھ ایسا ہو گیا تو۔ ہم نے ایسا کیا تو ایسا ہو جائے گا۔ کسی مشہور ادیب نے لکھا تھا کہ وہ چیز جسے آپ کرنے سے ڈرتے ہیں، وہ آپ کی زندگی بدل سکتی ہے۔ تو زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور اپنی جان لگا کر وہ کام ضرور کرنا جو راتوں کو آپ کو سونے نہیں دیتا۔ جو کھٹکتا ہے دل میں۔ رات کے کسی پہر جب آنکھ کھلتی ہے تو خیال آتا ہے کہ یار یہ کرنا چاہیے۔ ایک بار جی جان سے کر کے تو دیکھیے باقی بھاگ لگانے والی اللہ کی ذات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments