ایک کہانی، کچھ نئی کچھ پرانی


جانے کون سے یگ کی بات ہے دور پہاڑوں میں ایک گاؤں آباد تھا۔ لوگ سادہ دل اور جفا کش تھے۔ زمین میں جو اگاتے اسی سے گزر بسر ہوتی۔ اگرچہ ان کے خون پسینے سے پکنے والی فصل کی بیشتر پیداوار پر زمیندار کا حق فائق تھا مگر انھیں بھی اتنا ضرور مل جاتا کہ جسم و جاں کو تازہ دم کر کے مشقت کی بھٹی میں جھونک سکیں۔ محنت مشقت ہی ان کی سب سے بڑی مصروفیت تھی اور تفریح بھی۔ فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے درمیانی وقفوں میں ملنے والی فراغت بھی زمیندار کی بیگار کاٹنے میں صرف ہو جاتی۔

کچھ وقت برہمو سماج کی لگی بندھی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں کٹ جاتا۔ وہاں بھی پروہت کے جاری کردہ احکام ہو بہو بجا لانے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ اس طرح وہ لوگ سوچنے کی علت سے بچے رہتے۔ پڑھنے لکھنے کا رواج ابھی وہاں پہنچا نہیں تھا، البتہ مذہبی تعلیم اور مذہبی کتابیں ضرور موجود تھیں مگر یہ سب کچھ برہمن زادوں کی تحویل میں تھا عام آدمی کا اس میں کچھ عمل دخل نہ تھا۔ زمانے سے یہی چلن چلا آ رہا تھا مگر پھر وقت نے کسمسا کر کروٹ بدلی۔

کچھ لوگ گاؤں سے باہر نکلے، دور دراز کی مسافتیں کاٹیں اور جب واپس آئے تو ان کے پاس بہت سی نئی اور حیران کن خبریں تھیں۔ کچھ ایسی باتیں، کچھ ایسا پیغام جو بے حد انوکھا اور خوشگوار تھا۔ نہ پہلے دیکھا نہ سنا۔ بہت سے لوگ کھنچے آئے۔ ان کے لگے بندھے معمولات میں ایک نئی دلچسپی کی شمولیت نے ان کی سراسر جسمانی زندگی کو پہلی بار روحانی اہتزاز سے روشناس کیا۔ حلقہ بڑھنے لگا، عشق اور مشک کی بات پھیلنے لگی تو ایک قباحت یہ سامنے آئی کہ یہ ساری باتیں جو ان کی روحانی مسرت کا سبب بننے لگی تھیں، مروجہ مذہبی اور معاشرتی رسوم سے بنیادی اختلاف کی حامل تھیں۔

چنانچہ زمیندار کے محل کے کنگرے بھی تھر تھرا اٹھے اور برہمن زادوں کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کی اجازت اور رضامندی کے بغیر پبلک کوئی خوشی حاصل کر سکے۔ چنانچہ جلد ہی زمیندار کے ایما پر پروہت جی بروئے کار آئے اور ان حق پرستوں کا راستہ روکنے اور ناطقہ بند کرنے کی تدابیر ہونے لگیں۔ فتوے تیار ہوئے، مندروں میں ان کو کوسنے کا آغاز ہوا، زمیندار بھی سختی برتنے لگا۔ آبادی کے بڑے حصے کو ان کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔

ان کا مذاق اڑایا جاتا، تضحیک آمیز ناموں سے پکارا جاتا۔ انھیں مگر کوئی فرق نہ پڑا بلکہ دھیرے دھیرے حلقہ وسیع ہونے لگا۔ برہمو سماج کی پرمپرا میں سوال کی گنجائش ندارد تھی، چنانچہ پنڈتوں کا کام آسان تھا۔ مگر اب ایسے ایسے سوال اٹھنے لگے کہ مذہب کے ٹھیکیداروں کا ناک میں دم آ گیا۔ حلقے والوں کے پاس البتہ سب سوالوں کے جواب موجود تھے۔ وہ سوال اٹھانے والوں کو ٹوکتے بھی نہ تھے بلکہ سوال اٹھانے کا بیج ہی انھوں نے بویا تھا۔

ایسے ہی چلتا رہتا تو قریب تھا کہ بازی ہیئت مقتدرہ کے ہاتھ سے نکل جاتی۔ دھارمک مہاپرشوں نے سراسر جھوٹ سے گھڑے پتھروں کی بنیادوں پر حلقے والوں کی یلغار سے بچنے کے لیے جو قلعے تعمیر کیے تھے اور ساری پرجا کو ڈرا دھمکا کر ان میں مقید کر لیا تھا، ڈھے جانے کے اندیشوں سے لرز رہے تھے۔ لہٰذا جب تک ان مورکھوں کا کوئی پکا بندوبست نہ کر لیا جاتا چین محال تھا۔ زمیندار جو حال ہی میں نمبرداری کے منصب پر فائز ہوا تھا اس صورتحال کو اپنے سیاسی فائدے اور مذہبی طبقے کی آشیرباد کے حصول کے لیے استعمال کرنے پر تیار ہو گیا۔ طے یہ ہوا کہ اس مسئلے کو بڑی پنچایت میں پیش کیا جائے جو ارد گرد کے چار پانچ گاؤں جو نمبرداری کے دائرے میں آتے تھے، کے سرکردہ پنچوں پر مشتمل تھی۔ حلقے والوں کو ترغیب دی گئی کہ پنچایت کے روبرو اپنی صفائی پیش کر کے مقتدرہ کی نظروں میں سرخرو ہو جائیں۔ دور دراز سے رشیوں کو بلایا گیا جنھوں نے پنچایت کے سامنے دھرم کے بنیادی اور اٹل اصولوں کا پرچار کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حلقے والوں نے ان اصولوں کو توڑ کر بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کی سماجی حیثیت تبدیل ہو گئی ہے۔

معاشرہ ان کو اپنے اندر سمونے سے انکاری ہے۔ ان کا جرم اس قدر سنگین ہے کہ یہ لوگ انسان کہلانے کے لائق نہیں لہٰذا پنچایت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان کی شناخت کسی اور نام سے مقرر کی جائے تاکہ عوام کی بے چینی رفع ہو اور یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔ پنچوں نے یہ سارے بھاشن نہایت دلجمعی سے سنے۔ ان میں سے بیشتر کے لیے یہ ایک انوکھا مدعا تھا۔ ان کا مذہبی علم خاصا محدود تھا اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ان کی پوجا پاٹھ بھی صرف پروہت کی اندھی تقلید پر مشتمل تھی۔

دھرم کے معاملات میں فیصلے کا اختیار ان کے ہاتھ میں دینا اگرچہ دھرم کی جگ ہنسائی کے مترادف تھا مگر اس مشق سے جو مقصد حاصل کرنا مطلوب تھا وہ سیاسی اور مذہبی اشرافیہ کو خوب معلوم تھا۔ چنانچہ اس کارروائی کے دوران جب حلقے کا نمائندہ اپنا موقف پیش کرنے آیا تو اس بات کا خطرہ ضرور موجود تھا کہ وہ اپنی مسحور کن گفتگو سے پنچوں کو اتنا متاثر نہ کر دے کہ وہ اس کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور ہو جائیں۔ مگر جہاں فیصلے پہلے سے کر لیے گئے ہوں وہاں ایسی کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نبٹنے کا بندوبست بھی پہلے سے ہی کر کے رکھ لیا جاتا ہے۔

پنچوں کو حلقے والوں کی تھوڑی بہت سن گن ہی تھی، اب پہلی بار براہ راست آگاہی ہوئی تو ان کا متاثر ہونا فطری تھا۔ چنانچہ دوسرے دن جب ان کے نمائندے کا بیان ختم ہوا تو یوں لگ رہا تھا پنچایت کے سارے کے سارے ارکان پکے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آ گریں گے۔ مگر نمبردار نے فیصلہ روک لیا اور اگلے دن فیصلہ سنانے کا حکم صادر کیا۔ اس رات حویلی میں پنچوں کے لیے دعوت خاص کا اہتمام کیا گیا اور انھیں یہ بات اچھی طرح سمجھا دی گئی کہ فیصلہ وہی ہو گا جو پہلے سے طے شدہ ہے۔ انھیں اپنے دماغ پر زور ڈالنے کی بالکل ضرورت نہیں، ویسے بھی مذہبی معاملات کا انھیں کیا علم۔ اس لیے دعوت اڑائیں اور جیسا کہا جائے ویسا کر ڈالیں۔

چنانچہ دوسرے دن پنچایت نے جو متفقہ فیصلہ سنایا وہ نہایت دلچسپ، عجیب و غریب اور مضحکہ خیز تھا۔ فیصلہ سناتے ہوئے سرپنچ کی نظریں جھکی ہوئی، آواز تیز اور رفتار اس سے بھی تیز تھی جیسے تاخیر ہوئی تو کہیں فیصلہ تبدیل نہ کرنا پڑ جائے۔ یا جیسے اسے کسی نے مسمرائز کر دیا ہو یا جیسے نمبردار نے اس کی کمر میں میخ گاڑ دی ہو کہ وہ ناک کی سیدھ میں چلتا جائے اور ذرا بھی دائیں بائیں نہ ہو سکے۔

جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے، فیصلہ بالکل واضح، دو ٹوک اور ہیئت مقتدرہ کی منشاء کے عین مطابق تھا جس کی رو سے فریق ثانی کی تمام توضیحات کو رد کر کے اسے انسانیت کے درجے سے معزول کر دیا گیا تھا۔ گویا اب وہ قانون (یا آئین) کی رو سے انسان نہیں رہے تھے۔

( باقی آئندہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments