چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی خدمت میں


جناب اعلیٰ، میں پاکستان کا ایک ادنیٰ سا شہری، آپ کا سپورٹر سندھ سے چند گزارشات پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔
مائی لارڈ، میں حامد میر، وسعت اللہ خان، جاوید چوہدری جیسا لکھاری تو نہیں لیکن پھر بھی اپنے ٹوٹے، پھوٹے، ناقص جملوں سے سندھ کے چیف جسٹس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر لکھا اور آواز بلند کی ہے۔

مائی لارڈ۔

سندھ کی عدلیہ کی تاریخ نہایت شاندار رہی ہے۔ سندھ کے ججز کے چند تاریخی فیصلوں نے نا صرف عدلیہ کا سر فخر سے بلند کیا پر سندھی قوم کو بھی پاکستان میں معزز بنا دیا۔ سندھ کے ججز کے وہ فیصلے ہی تھے جس کی وجہ سے آج پاکستان کا با شعور طبقہ، وکلاء اور سیاستدان ہر اہم کیس میں، بنچ میں سندھی ججز کی شمولیت کی خواہش اور مطالبہ کرتے ہیں۔

مولوی تمیز الدین کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے ہی غیر آئینی قدم کو کالعدم قرار دیا تھا۔ وہ سندھی چیف جسٹس بھگوان داس ہی تھے جس نے لارجر بینچ تشکیل دے کر افتخار محمد چوہدری کی بحالی کو ممکن بنایا تھا۔

مائی لارڈ جسٹس بھگوان داس سے یاد آیا، آپ کی ماتحت عدلیہ کے کافی ججز جو مستقبل کے چیف جسٹس بن سکتے تھے، سپریم کورٹ کے جسٹس بن سکتے تھے وہ ہائی کورٹ کی سستی کی وجہ سے تیس سال گزرنے کے باوجود بھی اسی عہدے پر ہیں۔

جناب اعلیٰ۔

کسی بھی انسان کو ترقی سے محروم رکھنا کتنا بڑا ظلم ہے اس کا احساس تو انہیں ہو گا جو آج ڈسپلن کے تالے منہ پر لگائے خاموش بیٹھے ہیں۔ ایک مجسٹریٹ بیچارہ دس سال سے سول جج ہی کے عہدے پر ہے اس لیے نہیں کہ ان کی ACR خراب ہے یا ریکارڈ میں Red entry ہے، محض اس لئے کہ ہائی کورٹ نے کبھی زحمت ہی نہیں کی کہ DPC بٹھا کر کامپیٹنٹ ججز کو پروموٹ کیا جائے۔

آپ کی عدلیہ میں ایسے ہیرے لوگ بھی ہیں جو جسٹس بھگوان داس بن سکتے ہیں افتخار محمد چوہدری بن سکتے ہیں لیکن افسوس کہ کبھی ان کو پروموٹ ہی نہیں کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہائی کورٹ میں 70 فیصد جسٹس لوئر جوڈیشری سے لئے جاتے۔ کیونکہ وہ omniscient ہوتے ہیں۔ سول، کرمنل، فیملی، نیب، سارے قوانین رٹے ہوتے ہیں۔ وہ مجرم اور معصوم کو شکل سے ہی پہچان جاتے ہیں۔

ایڈیشنل سیشن جج کے ٹیسٹ میں بھی مجسٹریٹ کو بیٹھنے سے محروم کیا گیا ہے وہ بیچارہ دس بارہ سال صرف ایف آئی آر اور چالان دیکھتا رہتا ہے۔

عدلیہ میں بھی آرمی والا پروموشن سسٹم ہونا چاہیے۔ آرمی چیف وہی ہو گا جو سیکنڈ لیفٹیننٹ سلیکٹ ہوا ہو گا۔ چیف جسٹس بھی وہی ہونا چاہیے جو مجسٹریٹ بھرتی ہوا ہو۔ اور مختلف ٹیسٹ پاس کرتا ہوا پروموشنز کے پروسس سے چیف بنے۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ (بی پی ایس 17 ) سے آرمی چیف بننے میں نو ترقی کی منازل ہیں جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ (بی پی ایس 18) سے چیف جسٹس بننے میں چھ پروموشن steps ہیں۔

مائی لارڈ، یہ ٹرائل ججز محض پولیس پیپرز کی بنا پر convict اور acquit نہیں کرتے ہیں وہ ملزم کی نفسیات سے لے کر مدعی کے intention کو پڑھتے ہیں۔ لندن سے بیرسٹر کی ڈگری لانے والے برگر فیملی کے بچے کو کیا پتا کہ کندھ کوٹ اور ننگر پارکر میں کیسے ڈیوٹی کی جائے۔ ایک فیوڈل لارڈ اور سردار کا دباؤ کیسے سسٹین کیا جائے۔ یہ جوان جب جسٹس بنیں گے تو انہیں کوئی ایجنسی اور حکومت دباؤ میں نہیں لا سکتی ہے کیونکہ وہ ان بازوؤں کو آزما چکے ہوتے ہیں۔

مائی لارڈ، آخری ایک گزارش۔ ججز کی فیملیز کو تحفظ دیا جائے۔ مجھے اس نوجوان مجسٹریٹ کے وہ الفاظ آج بھی تڑپاتے ہیں جس نے مقتول بھائی کی تعزیت وصول کرتے کہا کہ کاش میں آج جج کے بجائے وکیل ہوتا تو یوں تنہا نا ہوتا، سارے سندھ کی بار میرے ساتھ کھڑی ہوتیں۔

امید ہے کہ اپنے پرستار کی ان گزارشات کا نوٹس لیتے ہوئے ججز پروموشن پروسس کو تیز کریں گے تا کہ ہمارے جج صاحبان کے اندر سے مایوسی ختم ہو جائے وہ بھی پروموشن کے شوق میں اپنے اسکلز کو مزید improve کرتے رہیں۔

میری عزیز عدلیہ پر کل کوئی ناقد طعنہ زنی نا کرے کہ یہ کیا انصاف دیں گے جو خود انصاف کے لئے برسوں سے انتظار کی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں۔

آپ کا پرستار اور عدلیہ میں اصلاحات کا خواہاں ایک عام پاکستانی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments