پانی کی قلت اور چوٹیاری رزوائر


جہاں حد نظر پانی ہی پانی نظر آتا تھا اب وہاں خاک اڑتے دکھائی دیتی ہے۔ ملک میں جاری پانی کی قلت نے اس مقام کو تو ایسے گھیر لیا کہ اب مچھیرے جنگ سے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے جاتے ہیں تاکہ گھر کے راشن کا انتظام ہو سکے۔ اور یہاں موجود اسپیڈ بوٹس ناکارہ کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ پکنک پوائنٹ پر موجود جھونپڑا ہوٹل ویران پڑے ہیں اور کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا سیاح اگر یہاں آ جائے تو کشتی والوں کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔ سیاح تو آئے پر کشتی ریت میں تو نہیں چل سکتی اور جھیل میں موجود پانی آنکھ کے پانی سے کم ہے۔

یہ علاقہ کبھی مکھی کے نام سے مشہور تھا۔ یہاں مکھی نامی ایک جھیل اور گھنے جنگلات ہوا کرتے تھے جنہیں چوٹیاری رزوائر نگل چکا ہے اور اب اس علاقے کو چوٹیاریوں ڈیم کہا جاتا ہے۔ مکھی کی پیر پگاڑا کی انگریز سامراج کے خلاف ”حر تحریک“ کے حوالے سے ایک تاریخی حیثیت تھی۔ دوران حر موومنٹ اس جگہ پر انگریز نے بمباری بھی کی اور کہا جاتا ہے کہ حر گوریلوں نے مکھی کے ان جنگلات میں برٹش راج کے دوران اپنی نجی حکومت بنا رکھی تھی جس کے اپنے وزیر کبیر، قانون اور جج ہوا کرتے تھے۔ چوٹیاریوں رزوائر کے بیچ ایک جزیرے پر موجود جونیجو قبیلے کی پرانی حویلیاں اسی دور کی باقیات ہیں اور یہاں آنے والے سیاح ان حویلیوں کی سیر لازمی سمجھتے ہیں۔ سانگھڑ کی مشہور رہو مچھلی اسی چوٹیاروں ڈیم میں ہی پائی جاتی ہے جو اب معدوم ہو رہی ہے۔ پانی کی قلت نے ایک طرف سیاحت کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری اور مچھلی نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں کے ماہی گیر فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔

اور پانی کی تقسیم میں نا انصافی نے ایک طرف پورے سندھ کے کاشت کاروں کو برباد کر رکھا ہے دوسری طرف ماہی گیروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بھوک اور افلاس کے مارے یہاں کے لوگ ان حالات میں مہنگائی کا مقابلہ کیسے کریں جب گزر و معاش کے سب وسیلے پانی کی قلت کی وجہ سے ناپید ہو چکے ہوں۔ پانی کی قلت کا معاملہ اپنی جگہ اس رزوائر کی حالت غیر کی ایک وجہ پانی کی چوری بھی ہے۔ گاوٴں والوں کے مطابق مقامی آبپاشی عمل دار اور افسران اکثر اوقات رزوائر کے آؤٹ لیٹ کے دروازے رات کے وقت کھول دیتے ہیں اس وجہ سے رزوائر کا پانی ضرورت سے زیادہ نکل چکا ہے اور پانی کی سطح اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ مچھیروں کی کشتیاں پانی میں چل نہیں پاتیں اور جگہ جگہ بکار جھیل کے پیٹ میں ریت کے ٹیلے ظاہر ہونے لگے ہیں۔

بکار والی پکنک پوائنٹ دراصل رزوائر کے ٹیل پر واقع ہے اور وہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے جھیل کا فطری حسن ختم ہو گیا ہے تو اب وزیٹر وہاں آ کر دیکھیں بھی تو کیا جب سارا نظارہ ہی ماضی کا قصہ بن چکا ہو۔ میری ذاتی آبزرویشن یہ رہی ہے کہ بکار نامی چوٹیاری ڈیم کی اس پکنک پوائنٹ کی بربادی کی ایک وجہ مقامی ضلع انتظامیہ کی بیگانگی بھی ہے۔ مگر اب ان حالات پر رونے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے جب یہ آب گاہ مکمل طور پر ایک صحرا کی شکل اختیار کر چکی ہے اور جزیروں پر آباد ماہی گیر اپنی بستیاں خالی کر رہے ہیں تاکہ کسی اور جگہ پر جاکر بچوں کے لیے روزی تلاش کر سکیں۔

روزی جو کہ پانی سے منسلک ہے اور پانی اب صرف لوگوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی صورت میں کہیں نظر آتا ہے۔ ہماری دریا میں تو اتنا بھی پانی نہیں جتنے شبنم کے قطرے صبح کے وقت پھولوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کسی کو کوئی گمان ہے تو وہ کوٹری بیراج سے بیشک دریائے سندھ کی حالت زار کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments