بلوچستان میں عدم اعتماد کی دھما چوکڑی


بلوچستان ایک تجربہ گاہ ہے، یہاں سیاستدان کیا باہر سے سرکاری افسران تک کو لاکر آزمائے جاتے ہیں مملکت میں عدم اعتماد کی ہوا جب بھی چلتی ہے تو عدم اعتماد کی سائبیرین ہوا بلوچستان سے چلتی ہے سات ماہ قبل سابق وزیر اعلی جام کمال کے خلاف ان کے اپنے ساتھیوں نے ناقص کارکردگی کو بنیاد بنا کر عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا کر کامیابی سے ہمکنار کرایا۔

بلوچستان میں عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے 65 کے ایوان میں 34 ارکان درکار ہوتے ہیں جام کمال کے خلاف یہ تعداد اپوزیشن اراکین کی بدولت آسانی سے مکمل ہو گئی تحریک کی کامیابی کا اندازہ ہونے کے بعد جام کمال نے آخری گیند تک لڑنے کے بجائے آرام سے استعفی دے کر کراچی رخت سفر باندھ کر مہینہ ڈیڑھ آرام کیا۔

یہاں بزنجو کی حکومت بن گئی کچھ نئے کچھ پرانے چہرے کابینہ میں بیٹھ گئے وزارتوں پر اختلافات پہلے ہی روز سے زور پکڑنے لگے ایم پی اے ظہور بلیدی وزارت اعلی کے امیدوار تھے مگر قرعہ بزنجو کے نام نکلا بزنجو کی وزارت اعلی کی کرسی سنبھالنے کے بعد ظہور بلیدی کو پی اینڈ ڈی کی وزارت تھما دی گئی اور پھر سینئر کا لاحقہ بھی لگا سینئر صوبائی وزیر ظہور بلیدی پھر بھی ناراض تھے کیوں کہ دل میں وزارت اعلی کی جو امید پالی تھی وہ ضائع ہو گئی اس دن سے لے کر کل عدم اعتماد کی تحریک جمع کرتے وقت تک ظہور بلیدی کھل کر بزنجو کے خلاف میدان میں تھے اختلافات کی وجہ وہ کرپشن بتا رہے تھے مگر بزنجو کی بنسبت جام دور میں کرپشن عروج پر تھا یہاں الیکٹڈ نمائندوں کے مقابلے میں نان الیکٹڈ لوگوں پر فنڈز کی بارش کر دیں باقاعدہ سرکاری پروٹوکول سے نوازا گیا بلوچستان عوامی پارٹی کا ہر دوسرا سرمایہ دار اور جاگیردار وزیر اعلی کا مشیر ہوا کرتا تھا،

کوئٹہ سیکرٹریٹ میں دفاتر کم پڑ گئے وزیر اعلی ہاؤس میں ہر اس الیکٹڈ نمائندے کے مقابلے میں نان الیکٹڈ (ہارے ہوئے ) امیدوار کو دفتر حوالہ کیا گیا جو جام کمال کے طبعیت کے موافق نہ تھا، اپوزیشن اراکین کے حلقوں میں مداخلت کی انتہا کر دی۔ ایک ایس ایچ او کا تبادلہ اپوزیشن رکن اسمبلی کی کہنے پہ حرام تھا رکن اسمبلی سے زیادہ پاور فل بلوچستان عوامی پارٹی کا مقامی رہنما ہوتا تھا لیکن بزنجو دور میں ایسا کچھ نہیں تھا نان الیکٹڈ لوگوں کو فنڈز کی معطلی کا باقاعدہ حکم جاری ہوا۔ ان کا وزیر اعلی ہاؤس میں داخلہ محدود ہو گیا پچھلے تین سال سے محروم حلقوں میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا اپوزیشن کے لوگوں کو انسان کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔

سرکاری ملازمین کے تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافہ کیا گیا البتہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری نظر نہیں آئی بادی النظر میں جام کی بنسبت بزنجو کا دور بہتر رہا مگر پھر بھی انتظامی اور حکومتی نا اہلی کو بنیاد بنا کر 18 مئی کو بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کروا دی گئی قرارداد جمع کرانے والوں میں سابق وزیر اعلی جام کمال اور سردار یار محمد رند سر فہرست ہیں دونوں نے مولانا فضل الرحمن، میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کا فیصلہ کیا البتہ بلوچستان میں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام پاکستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) یہاں مخمصے کی شکار ہے وہ اپوزیشن میں رہ کر بزنجو حکومت سے مطمئن ہے اور ہٹانے پر وہ راضی نہیں اگر پارلیمانی اراکین پر باہر کا فیصلہ مسلط نہیں کیا گیا تو وہ بزنجو کے خلاف نہیں جا سکتے جب جام گروپ کو اپوزیشن کی حمایت حاصل نہ ہوگی تو تحریک عدم اعتماد کی ناکامی یقینی ہے اگر باہر سے فیصلہ تھوپا گیا تو بزنجو کا جانا کنفرم ہے عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی میں اراکین اسمبلی کے لئے کیا سرپرائز ہو گا وہ تو آئندہ چند دن میں واضح ہو گا البتہ عوام کے لئے کچھ نہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک کی ابتدا بلوچستان سے ہوئی تھی، وفاق اور پنجاب سے ہو کر بلوچستان پر اختتام ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments