آگ کے شعلوں میں گھرے چلغوزوں کے درخت حکومتی لاپرواہی پر نوحہ کناں


کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے ایک بڑے حصے پر محیط چلغوزے کے جنگلات جو کہ بلوچستان کے ضلع شیرانی اور خیبر پشتونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درانذدہ تک پھیلے ہوئے ہیں رواں سال ان جنگلات میں کئی بار اگ بھڑک اٹھی۔ جس سے سینکڑوں درخت جل کر خاکستر ہو گئے۔ لیکن نہ بلوچستان کی حکومت نہ خیبر پشتونخواہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

اس غفلت اور لاپروائی کے باعث دس دن قبل شیرانی کے علاقے میں واقع چلغوزے کی جنگل میں ایک بار پھر خوفناک آگ بھڑک اٹھی جو گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ خوفناک آگ اب تک سینکڑوں قیمتی درختوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر جلا کر راکھ کرچکی ہے۔

افسوس کن امر یہ حکومتی بے پرواہی اور غفلت کے باعث تین مقامی نوجوان اب تک اس آگ کے نظر ہوچکے ہیں۔ جو پھیلتے ہوئے آگ پر قابو پانے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے کوشش کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ سینکڑوں جنگلی حیوانات بھی اس آگ کے نظر ہو گئے ہیں۔

اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ممکن ہے بے قابو آگ مقامی آبادیوں کو بھی لپٹ میں نہ لے۔ اس لیے اب تک پینتالیس گھر خالی کر دیے گئے ہیں۔ ان بے گھر افراد کے لئے بھی تاحال حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔

یاد رہے مقامی لوگوں کے بڑی تعداد کا معاشی انحصار چلغوزے کے انھیں جنگلات پر ہے۔ بڑی تعداد میں درختوں کے جلنے سے بہت سے لوگ بیروزگار ہوجائیں گئے۔ دوسری طرف ملک کا 1.8فیصد حصہ رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ پالیسی تو یہ ہونی چاہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جاتے تاکہ ملک میں ہریالی زیادہ ہو اور موسمیاتی تبدیلی سے باآسانی نمٹا جاسکیں۔ لیکن یہ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ قیمتی درخت جل رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

وفاقی حکومت کے طرف سے 19 مئی کو نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ کے جانب سے ژوب ایک ہیلی کاپٹر آگ پر قابو پانے کے لئے پہنچتا ہے۔ لیکن وہ ناکام ہو کر لوٹ جاتا ہے۔ اس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت بھی کمبل اڑا کر سو جاتی ہے۔ انسان، حشرات اور قیمتوں درختوں کو بھڑکتے آگ کے رحم کرم پر چھوڑ جاتے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم یونین آف کنزورشن کے ایک جائزے کی مطابق پاکستان میں جنگلات میں مسلسل کمی کے باعث 12 جنگلی حیات کی نسلیں معدومی کا شکار ہیں، جبکہ گیارہ کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان میں جنگلات پہلے ہی ناپید ہیں۔ اس طرح کی کوتاہی موسم کی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ آنے والے وقت میں ایک بہت بڑی المیے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے ملک میں ہر سال ستائیس ہزار ہیکٹر قدرتی جنگلات کی کمی واقع ہو رہی ہے۔

یاد رہے بلوچستان میں شدید خشک سالی اور زیرزمین پانی کے ذخائر کم ہونے کے باعث باغات بھی معدوم ہو رہے ہیں۔ جس کے باعث بلوچستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے۔ مگر حکومت بلوچستان کے محکمہ جنگلات، ماحولیات اور محکمہ زراعت کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ ان محکموں کے دفترمیں سوائے کوئٹہ کے ملازمین اپنا حاضری لگانے کے لئے بھی نہیں آتے۔

سالمین خپلواک بلوچستان میں قدرتی جنگلات اور نباتات اور حشرات کے تحفظ کے لئے کرنے والی تنظیم اشر تحریک کا سربراہ ہے۔ ان کا اس بابت کہنا تھا کہ ہم نے اس دنیا کو ان جنگلات کے توسط سے مفت آکسیجن مہیا کیا ہے۔ ان کی بھی یہ ذمہ داری بنتی اور ہمارا ان پر قرض بنتا ہے کہ وہ ان جنگلات کی تحفظ میں ہماری مدد کرے۔ ایک ایسا طریقہ کار وضع کرے کہ ہم اس بھڑکتے ہوئے شعلوں پر جلد از جلد قابو پا لیا جائے۔

خپلواک کے مطابق : چونکہ یہ جنگلات پر محیط علاقہ ہے انہوں نے کوشش کر کے یہاں درخت کاٹنے پر پابندی عائد کردی۔ عوام کو آگاہی فراہم کر کے اسے اس کے لئے تیار کیا کہ وہ جنگلات کی تحفظ یقینی بنائیں۔ ریاست اور ملکی اداروں کی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔

سالمین خپلواک نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے برسوں محنت کی لیکن وہ ایک ہی دن میں اگ کی نظر ہو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments