ایک مدبر مگر ایماندار آدمی


فیس بک پر ایک ویڈیو نظر سے گزری کہ جس میں ایک تھری پیس سوٹ میں ملبوس جینٹلمین مائیک لئے کھڑا ہوئے تھے، اور ان کے سامنے کوئی آدھا درجن افراد موجود تھے۔ اس با ادب جینٹلمین نے انتہائی عاجزی اور انکساری سے تقریر کا آغاز ان افراد کے شکریہ سے کیا کہ جنہوں نے اس تقریب میں شرکت کی۔ اس کے بعد ان افراد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کلمہ ادا کیا کہ ”وی آر یور پراڈکٹس“ اب اگر میرے جیسے انگریزی سے تقریباً نابلد شخص کی جانب سے اس کی تشریح کی جائے تو کچھ یوں سمجھ آیا کہ وہ لوگ شاید کوئی سائنسدان تھے اور مائیک سنبھالے بولنے والا شخص ان کی بنائی گئی مصنوعات میں سے ایک تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ لمبا چوڑا یہ جینلمین تھوڑا جھک کر یہ تعریفی کلمات ادا کرنے میں مصروف تھا۔ اب یہاں پھر مجھے یہ لگا کہ شاید ان کو کھڑے ہونے میں کوئی مسئلہ ہو گا تبھی تھوڑا جھک کر کھڑے ہوئے ہیں۔

مگر پوری ویڈیو دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ جینٹلمین کوئی اور نہیں بلکہ کورکمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا تھے اور جن کے بارے میں وہ تحسین کے کلمات ادا کر رہے تھے وہ ان کے اساتذہ تھے۔ ان کا یوں جھک کر کھڑا ہونا کسی جسمانی کمزوری یا بیماری کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اپنے اساتذہ کے لئے وہ حد درجہ ادب اور احترام تھا جو آج کل کے نوجوان طلباء میں اپنے اساتذہ کے لئے شاید ہی پایا جاتا ہے۔ دو منٹ پچاس سیکنڈ کی اس ویڈیو میں ان جینٹلمین نے ہر جملے کا آغاز اور اختتام ”سر“ پرکیا۔ تقریر میں انہوں نے خود کو ملنے والے مقام کا سہرا اپنے اساتذہ کے سر دیتے ہوئے ایک ایک استاد اور ان کے مضامین میں مہارت کا ذکر کیا۔

یہ جنرل اس وقت اگلے آرمی چیف کے لئے سینیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر موجود ہیں، سندھ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کے کیرئیر کے بارے میں تو قارئین کرام گوگل کر کے جانا جاسکتا ہے۔ ان کی شخصیت کا عاجزی اور انکساری والا پہلو تو ویڈیو دیکھ کر میرے سامنا آیا۔ مگر اس سے پہلے ایک ملاقات میں ان کا استہزائیہ ذکر بھی سننے کو ملا تھا۔ یہ ملاقات کسی اور سے نہیں بلکہ ہماری قابل قدر فورس کے ہی ایک دوست کے ساتھ تھی۔

اس ملاقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جب ایک دوست نے نئے آرمی چیف کون ہو گا؟ کا سوال داغا تو انہوں نے ایک ایک کر کے تمام امیدواروں کی قابلیت، اس وقت کی حکومت کے ساتھ تعلقات، پروفیشنل لائف اور تعیناتی ہونے کے چانسز پر روشنی ڈالی۔ ان دوست نے تین جرنیلز میں سے سب سے کم چانسز جس جنرل کے بارے میں ظاہر کیے وہ تھے جنرل ساحر شمشاد مرزا، اور اس کی بنیادی وجہ کوئی قابلیت نہیں بلکہ ان کا ظاہری حلیہ اور رنگ تھا۔

جس استہزائیہ انداز میں یہ بات کی گئی اس پر نہ صرف میں نے وہاں پر احتجاج کیا بلکہ اس کا تذکرہ دیگر دوستوں سے بھی کیا۔ میرے ایک پہنچے ہوئے دوست اور ذرا کھلے ڈلے افسر ”شاہ جی“ نے بار بار کے سوال کے بعد جواب دیا کہ جنرل صاحب تو انتہائی شریف اور عاجز انسان ہیں۔ ان کے مطابق یہ پاک فوج اور وطن پاک کی خوش نصیبی ہوگی کہ جنرل صاحب جیسا چیف نصیب ہو۔ مزید جو معلومات مہیا ہوئیں وہ یہ تھیں کہ جنرل صاحب کے والدین ان کے بچپن میں ہی چل بسے تھے اور ان کا کوئی اور قریبی رشتہ دار یعنی کہ بہن بھائی بھی نہیں ہے۔ حتی کہ جب ایک موقع پر ان کی سروسز فائل میں ”نیکسٹ ٹو، کن“ کے کالم میں کسی رشتہ دار کا نام پوچھا گیا تو اس میں ان کی یونٹ ”8 سندھ“ لکھی گئی۔

ایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خود بھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ان کا اس دنیا میں ان کی یونٹ اور پاک فوج کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے۔ معزز قارئین اس تحریر کا مقصد کسی حاضر سروس جنرل کی خوش آمد کرنے کی کوشش یا کوئی نمبر بنانا نہیں ہے بلکہ ایک اہل اور موزوں شخصیت کی زندگی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے \جس کا عام قاری کو شاید ہی علم ہو۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ہماری افواج کے بارے میں پراپیگنڈا اپنے زوروں پر ہے اور ہر کوئی سیاسی مخالفت میں تنقید کے نشتر چلائے جا رہا ہے۔ میں ملتمس دعا ہوں کہ ان جیسے کسی شریف جنرل کو پاکستان کی افواج کی کمانڈ نصیب ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments