جابر اعظم


90 کی دہائی میں کراچی کے ایک ٹیکسٹائل ملز میں کام ملا۔ یہ کسی ٹیکسٹائل ملز کو اندر سے دیکھنے کا میرا پہلا تجربہ تھا۔ یہاں مختلف قسم کا کپڑا تیار ہوتا تھا۔ جو مختلف مراحل سے گزر کر لوکل اور بین الاقوامی مارکیٹ میں سیل ہوتا تھا۔ مجھے ایک رجسٹر دیا گیا جس میں روزانہ کی بنیاد پر تیار ہونے والے کپڑے کی انٹری کرنی پڑتی۔ کام اتنا مشکل نہیں تھا اس لیے جلد ہی سیکھ گیا۔ مل تین شفٹوں میں 24 گھنٹے چلتا تھا۔ کئی کنال پر پھیلے ہوئے مل کے اندر مختلف ڈیپارٹمنٹ تھے۔

سب کی اپنی اپنی ذمہ داریاں تھیں۔ ایک چاردیواری کے اندر پوری دنیا آباد تھی۔ ہزاروں ملازمین تھے۔ جن میں منیجمنٹ ، ٹیکنیکل، مارکیٹنگ اور مزدور شامل تھے۔ مل کے اندر رہائشی کالونی بھی تھی۔ جس میں مختلف کیٹیگریز کے ملازمین کے لئے مکانات تھے۔ باہر کی دنیا جیسے۔ منیجمنٹ کے مکانات بڑے بڑے اور کافی سہولتوں والے تھے۔ جبکہ چھوٹے ملازمین کے مکانات بھی چھوٹے تھے۔ یہاں بھی امیر غریب کا فرق نمایاں تھا۔ باہر کی دنیا کی طرح یہاں بھی اختیارات کا ناجائز استعمال، مزدورں کا استحصال اور کرپشن موجود تھا۔

مل کے انتظامی معاملات چلانے کے لئے منیجمنٹ کی پوری ٹیم موجود تھی۔ جو ملک کی افسر شاہی کی طرح کام کرتی تھی۔ سارا نظام وہی لوگ چلاتے تھے۔ اور یہ سب سے زیادہ مراعات یافتہ طبقہ بھی تھا۔ ان کی نوکریاں پکی تھیں۔ مل مالکان اپنے وقت کے حساب سے آتے تھے۔ منیجمنٹ کے مختلف لوگوں سے رپورٹ لے کر ضروری احکامات صادر کر کے نکل جاتے تھے۔ مل کو چلانے اور منافع کمانے کا سارا کام منیجمنٹ کرتا۔ مل کے اندر جتنی مشینری تھی اس کی دیکھ بھال کے لئے مختلف قسم کے انجنیئر اور دیگر سٹاف بھی تھا۔ یہ لوگ بھی شفٹوں میں کام کرتے تھے ان کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ کوئی مشین رک نہ جائے اور اگر کوئی مشین خراب ہو تو اس کو جلد از جلد قابل استعمال بنائے۔

مل کے اندر ایک بڑی تعداد مزدورں کی تھی۔ یہ مزدور ایک بندے کے ماتحت تھے۔ یہ بندہ اصل میں ٹھیکیدار تھا جس کو جابر کہتے تھے۔ جابر کے لئے ضروری نہیں تھا کہ وہ پڑھا لکھا ہو۔ بس اس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ہر وقت مزدورں کی تعداد کو پورا رکھے۔ مزدوروں کی نگرانی کرے اور ان سے کام لے تا کہ مل چلتا رہے۔ جابر کا ٹھیکہ ہوتا تھا۔ مزدورں کو مل سے تنخواہ نہیں ملتی بلکہ جابر کو مل منیجمنٹ ہر ماہ ایک مقررہ رقم دیتے جس سے مزدورں کی تنخواہ ادا کرنے کے بعد باقی پیسے اپنی جیب میں ڈالتا۔

چونکہ جابر کی اپنی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی اس لیے اس کی کوشش ہوتی کہ کم لیبر سے زیادہ کام لے کر خود زیادہ سے زیادہ کمائے۔ جابر جب چاہتا مزدور کی چھٹی کرا کر نیا رکھ لیتا۔ جابر کو عموماً نہیں ہٹایا جاتا۔ لیکن جب مالکان کو اندازہ ہوجاتا کہ جابر سے مزدور کنٹرول نہیں ہو رہے ہیں یا کام میں اس کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ تو پھر کوئی نہ کوئی بہانہ ڈال کر اس کو فارغ کرتے۔ کبھی کبھی کوئی جابر مزدوروں کی ہڑتال کرا کے مل مالکان کو بلیک میل کروا کر اپنی من مانی کی کوشش کرتا۔ تو اس صورت میں بھی مل مالک منیجمنٹ کے ذریعے جابر کو فارغ کرتے اور نئے جابر کے ساتھ معاہدہ کر کے مل چلانے لگتے۔

جابر کی چھٹی کے ساتھ اس کے لیبر اور دوسرے کارندے بھی فارغ کیے جاتے۔ نیا جابر اپنی نئی ٹیم کے ساتھ کام سنبھالتا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جب کسی وزیراعظم کی چھٹی ہوتی ہے تو ساتھ میں کابینہ بھی فارغ ہو کر گھر جاتی ہے۔

جابر تب تک کام کرتا ہے جب تک مل مالکان کے فائدے میں ہوں۔ اگر مالکان کو منافع ہو تو جابر کی نوکری برقرار۔ لیکن جس دن مالکان دیکھتے ہیں کہ اس سے اب فائدہ کم ہے تو پھر وہی کہانی۔ یعنی نیا جابر اور نئی ٹیم۔

اب ذرا تصویر کو بڑی کر کے دیکھتے ہیں۔ مل مالک کی جگہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک تصور کرتے ہیں۔ اور مل منیجمنٹ کو افسر شاہی کو رکھتے ہیں۔

جابر تو بدلتے رہتے ہیں کبھی وردی والے اور کبھی وردی کے بغیر۔ رہی عوام تو عوام بے چارے تو مزدور ہیں۔ جابر نے ان سے کام لے کر مل مالکان کو فائدہ دینا ہوتا ہے۔ اگر مالکان کو فائدہ نہ ہو تو جابر کی اپنی نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ انتظامیہ یا افسر شاہی مالکوں کی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ اصل میں یہی لوگ سارا نظام چلاتے ہیں۔ ان کو ضرورت کے مطابق ادھر ادھر کیا جاسکتا ہے لیکن ان کو ہٹانا ناممکن ہے۔ اس لیے مالکان کو ان کی بہت سی کوتاہیوں سے چشم پوشی کرنی پڑتی ہے۔

لیکن جابر کا جو کام ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں ہوتی۔ یہ جو الیکشن یا کسی اور نام سے عوام پر جابر مسلط کیے جاتے ہیں یہ عوامی مفاد کے لئے نہیں بلکہ سرمایہ داروں کی مفادات کے تحفظ کے لئے ہوتے ہیں۔ عوام زندہ باد اور مردہ باد کی چکروں ایک دوسرے دشمنیاں تک مول لیتے ہیں۔ ہر جابر سے اچھائی اور ترقی کی امید پہ مزید دلدل میں گرتے ہیں۔ سامراج کے آلہ کار بن کر اپنے اوپر ایک نیا جابر مسلط کرتے ہیں۔ جبکہ اصل معنوں جابر کا کام عوام کی بھلائی نہیں بلکہ سرمایہ دار کی بھلائی ہوتی ہے۔ کیونکہ جابر عوام کا نہیں بلکہ سرمایہ دار کا نمائندہ ہوتا ہے۔ مہینے کے اخر میں اس نے تنخواہ سرمایہ دار سے ہی لینی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments