انڈیا: آسام کے زہریلے مشروم جو چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کی موت کا سبب بن گئے

دلیپ شرما اور زویا متین - انڈیا


Anjali Kharia
آسام کے گاؤں میں لوگ زہریلی جنگلی مشروم کھانے سے ہلاک ہو رہے ہیں
جب انجلی کھاریا آٹھ اپریل کو اپنی بچی کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہی تھیں، تو انھیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ دونوں کا ایک ساتھ آخری کھانا ثابت ہو گا۔

آسام کے گاؤں چپاتولی کے چائے کے باغات میں دن بھر کام کرنے کے بعد انجلی کھاریا پہاڑیوں کی آڑی ترچھی پگڈنڈیوں پر چل کر گھر واپس آئی تھیں۔ انھوں نے کھانا کھایا اور فوراً ہی سو گئیں۔

صبح تقریباً تین بجے وہ اپنی چھ سالہ بچی سشمیتا کی شدید الٹیاں کرنے کی آواز سن کر ہڑبڑا کر اٹھیں۔ اس کے بعد وہ کانپنے لگی۔ جب اس کی طبیعت نہ سنبھلی تو انجلی اور پریشان ہوئیں۔ اسی دوران ان کے بیٹے اور سسر بھی الٹیاں کرنے لگے۔ انجلی حواس باختہ ہو گئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

37 سالہ انجلی کھاریا کہتی ہیں کہ ’سب کے سب ایک ساتھ قے کر رہے تھے۔ اس کے بعد انھیں شدید اور مسلسل دست لگ گئے۔‘

جلد ہی انھیں معلوم ہوا کہ اس رات ان کے ہمسائیوں میں بھی کئی لوگوں میں ایسی ہی علامات پائی گئی تھیں۔ ’یہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔ سب قے کر رہے تھے لیکن کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔‘

جب ڈبرو گڑھ ڈسٹرکٹ میں واقع ان کے گاؤں میں صبح ہوئی تو انجلی اپنی بیٹی کو قریبی فارمیسی میں لے کر گئیں، جہاں انھیں سلین واٹر (نمکین پانی) اور کچھ ادویات دی گئیں۔

دوسرے مریضوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایک ایمبولینس منگوائی گئی اور انجلی نے اپنی بچت کے پیسے استعمال کرتے ہوئے اسی ایمبولینس میں اپنے سسر اور بیٹے کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ کھاریا کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی بیٹی کو نہیں بھیجا کیونکہ وہ دوائی کے بعد قدرے بہتر محسوس کر رہی تھی۔ مجھے لگا کہ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔‘

24 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں ان کی بیٹی کی طبیعت پھر خراب ہونے لگی اور اسے متلیاں شروع ہو گئیں۔ اس وقت انجلی کھاریا کے پاس اسے ہسپتال بھیجنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ چند گھنٹوں بعد ان کی بیٹی سشمیتا ماں کی بانہوں میں دم توڑ گئی۔

بعد میں پتہ چلا کہ سبھی لوگ زہریلے جنگلی مشروم (کھمبیاں) کھانے سے بیمار ہوئے تھے جو انجلی کھاریا کے سسر قریبی جنگل سے توڑ کر لائے تھے اور جو انھوں نے اپنے ہمسائیوں میں بھی تقسیم کیے تھے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق زہریلے مشروم کھانے سے سشمیتا کے علاوہ دو اور افراد کی جان گئی تھی اور کل گیارہ افراد کو ہسپتال داخل ہونا پڑا تھا۔ اس واقعے کے ایک مہینے کے بعد بھی گاؤں اس سانحے سے باہر نہیں نکلا۔

چھتیس سالہ نیہا لاما کہتی ہیں کہ ’میں وہ رات کبھی نہیں بھولوں گی، مجھے لگا کہ کوئی نہیں بچے گا۔ ہلاک ہونے والوں میں ان کے سسرال کے دو افراد بھی شامل تھے۔ نیہا خود بھی بیمار ہوئی تھیں اور انھوں نے اپنے بیمار بچے کے ساتھ ہسپتال میں بھی کچھ دن گذارے تھے۔

’ہم کئی برسوں سے مشروم توڑ کر کھا رہے ہیں، ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ وہ زہریلے تھے؟‘

Anjali Kharia holds a photo of her daughter

انجلی کھاریا کی بیٹی سشمیتا جو زہریلی مشروم کھانے سے ہلاک ہوئی تھی

مشروم کا زہر اکثر آسام اور ہمسایہ شمال مشرقی ریاستوں میں شہ سرخیوں میں رہتا ہے جہاں مقامی لوگ مشروم، فرنز اور جنگلی بیریز کی جنگلات میں تلاش کرتے ہیں اور انھیں مختلف طریقوں سے پکاتے ہیں۔ جنگلی مشروم کو ریاست کے کچھ حصوں میں ایک لذیذ کھانا بھی سمجھا جاتا ہے، جسے مزے دار گاڑھے سوپ اور پکی ہوئی سبزیوں کی صورت میں کھایا جاتا ہے۔

آسام میں، اس طرح کی اموات اکثر مارچ اور اپریل میں رپورٹ ہوتی ہیں جب ریاست کے مشہور چائے کے باغات کے نیلے سبز کھیتوں پر سینکڑوں مشروم نظر آتے ہیں۔ اور متاثرین تقریباً ہمیشہ غریب مزدور ہی ہوتے ہیں جو ان باغات میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔

ان اموات کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں رکھا گیا ہے، لیکن ریاستی محکمۂ صحت کے دو اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ اپریل میں مرنے والے 16 افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق چائے کے باغات کے مزدور خاندانوں سے ہی تھا۔

آسام زرعی یونیورسٹی کے ایک سائنسدان اور پینل کے ایک ممبر دلیپ کمار سرما کہتے ہیں کہ 2008 میں، زہریلے مشروم کھانے سے 20 افراد کی موت ہو گئی تھی، جو اب تک کی سب سے زیادہ اموات ہیں، جس کے بعد ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک پینل تشکیل دیا۔ اس وقت بھی، زیادہ تر متاثرین چائے کے باغات میں کام کرنے والے تھے۔

A villager looks for mushrooms in a forest in Assam

آسام میں اکثر دیہاتی لوگ جنگلی مشروم توڑ کر کھاتے ہیں اور اس سے نت نئے کھانے پکاتے ہیں

ڈاکٹر سرما کہتے ہیں کہ ’اس کی ایک بڑی وجہ مشروم کی اقسام کے متعلق چائے کے باغات میں کام کرنے والوں میں بیداری کا فقدان ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کون سی اقسام نایاب ہیں، کون سی لذیذ ہیں یا کون سی زہریلی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ یہ باغات کے مالکان کی ذمہ داری کہ وہ اپنے کارکنوں کی حفاظت کریں۔

’حکومت نے ماضی میں اس طرح کے استعمال کے خلاف اخبارات میں مشورے شائع کیے ہیں، لیکن یہ پیغام خاندانوں تک نہیں پہنچتا کیونکہ ان میں سے زیادہ تر ناخواندہ ہیں۔‘

کمیونٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں مشروم کی پیداوار میں ریکارڈ کمی

منشیات کی پیداوار کے لیے بدنام پاکستانی علاقہ جہاں اب مشروم اگائے جا رہے ہیں

ایک قسم کی خوراک پر زندگی ممکن ہے؟

وٹامن ڈی کا استعمال کتنا ضروری، مفروضے اور حقائق

آسام کی زرخیز پہاڑیوں میں دنیا کی سب سے قیمتی چائے اگائی جاتی ہے۔ وسیع و عریض چائے کے اسٹیٹس، جو انڈیا کی بڑی اور کئی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی ملکیت ہیں، میں بھی پرتعیش رہائش گاہیں ہیں جو سیاحوں میں بے حد مقبول ہیں۔

لیکن کام کرنے والوں کی زندگی کے حالات اکثر اس کے الٹ ہیں۔

Women worker plucking tea leaves as dark clouds gather in the sky, in a tea garden in Baksa district of Assam in India on 14 September 2020.

آسام اپنے چائے کے باغات کی وجہ سے بہت مشہور ہے

بی بی سی نے چپاتولی میں چائے کے باغات میں کام کرنے والے کارکنوں کے کئی خاندانوں سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ وہ بانس کی خستہ حال جھونپڑیوں میں رہتے ہیں جہاں ٹین کی بنی ہوئی چھتیں ٹپک رہی ہوتی ہیں اور صحت و صفائی کی ناقص صورتحال ہوتی ہے۔

اجرت اس قدر کم ہے کہ ان کے خاندان والے اکثر بھوکے رہتے ہیں۔ اور سبزیوں اور ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے معاملات کو مزید خراب کر دیا ہے۔

انجلی کھاریا نے کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی ڈھونڈ سکتے ہیں اسے اٹھا کر کھا لیتے ہیں۔‘ کھاریا پورا دن محنت کر کے ایک سو تیس روپے کماتی ہیں اور اپنے چھ افراد کے خاندان میں وہ واحد کمانے والی ہیں۔‘

’میری بیٹی کی موت کے بعد سرکاری افسران ہمارے گھر آئے تھے اور انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم زہریلے مشروم نہ کھائیں۔ لیکن ہم اتنے غریب ہیں اور ہر چیز بہت زیادہ مہنگی ہے۔ ہمیں جو ملتا ہے اس سے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔‘

ضلعی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے عوامی فلاحی سکیموں کے ذریعے زیادہ قیمتوں کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ ڈبرو گڑھ کے ڈپٹی کمشنر بسواجیت پیگو کہتے ہیں کہ ’ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ انھیں عوامی تقسیم کے نظام کے تحت مفت راشن ملے۔‘

لیکن انجلی کھاریا کہتی ہیں کہ انھیں کبھی بھی مفت اناج نہیں ملا۔ ’کچھ دن تو کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن کوئی ہماری مدد کو نہیں آتا۔‘

Anjali's house

چپاتولی کے دیہات میں لوگ خستہ حال جھونپڑیوں میں رہتے ہیں

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ سنگین بیماریاں اس وقت ہوتی ہیں جب مقامی لوگ امانیتا فیلوئیڈز یا ’ڈیتھ کیپ‘ مشروم چن کر کھاتے ہیں۔ یہ ایک زہریلے ہلکے سبز یا سفید رنگ کی مشروم ہے جو مزیدار بھی کہے جا سکتے ہیں۔ اسے کھانے سے متلی، الٹی، پیٹ میں درد اور شدید اسہال ہو سکتا ہے۔

آسام میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال (اے ایم سی ایچ) کے سپرنٹنڈینٹ پرشانت ڈیہنگیا کہتے ہیں کہ اکثر اوقات، مریض بیمار ہونے کے فوراً بعد ہسپتال نہیں آتے، جس سے گردے یا جگر کی خرابی جیسے صحت کے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جب تک وہ علاج کے لیے آتے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس بارے میں آگہی پیدا کرنا کہ کون سے مشروم زہریلے ہو سکتے ہیں، اس مسئلے پر قابو پانے کا واحد طریقہ ہے۔ ’آپ برادریوں کو ان کا روایتی کھانا کھانے سے نہیں روک سکتے، لیکن آپ انھیں محفوظ طریقے سکھا سکتے ہیں۔‘

پیگو کہتے ہیں کہ اگرچہ ’ہر شخص سے جا کر ملنا ممکن نہیں ہے‘، تاہم پھر بھی حکام بنیادی سطح پر مہم چلا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ سکھایا جا سکے کہ زہریلے مشروم کو دوسری کھانے والے مشروم سے کیسے الگ کیا جا سکتا ہے۔ ’ہمارے صحت کے رضاکار باقاعدگی سے دیہات کا دورہ کرتے ہیں اور ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔‘

لیکن چپاتولی کے لوگوں کو اس پر یقین نہیں ہے۔

انجلی کھاریا کہتی ہیں کہ ’ہمارے لیے بس ہم ہی ہیں۔ وہ (اہلکار) صرف اس وقت آتے ہیں جب ہم میں سے کوئی مرتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments