بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں


‎اس وقت پاکستان کے اندر سیاست اور ریاست میں ایک جنگی کیفیت نظر آ رہی ہے۔ اس جنگی کیفیت میں عسکری انتظامیہ کا کردار بہت نمایاں نظر آ رہا ہے۔ فوج کے تعلقات عامہ کے جرنیل نے اعلان فرمایا تھا کہ ملک میں سیاسی لوگوں کا فوج پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد جو مخلوط سرکار بنی، اس کی کارکردگی معیشت کے حوالہ بہت ہی خراب جا رہی ہے۔ مخلوط سرکار کے وزیر اور مشیر سیر سپاٹے میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ

‎نواز کے وزیر صاحبان کو لندن طلب کیا گیا۔ وہاں پر تارکین وطن نے ان کا خوب سواگت

‎ بھی کیا اور ہمارے وزیردفاع نے لندن میں خریداری کا ریکارڈ بھی بنایا۔ اس وقت صورت حال بہت ہی مخدوش نظر آ رہی ہے۔ اس ساری صورت حال میں افواج پاکستان کے اہم لوگوں کے بیرون ملک دورے بھی بہت سوال پیدا کر رہے ہیں۔ کیا افواج پاکستان کسی نئی سرکار کے لئے معاملات طے کر رہی ہے۔

‎اس وقت ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ افواج کے اہم لوگ کس بنیاد پر لندن اور امریکہ میں کن لوگوں سے معاملات طے کر رہے ہیں۔ ایک طرف مخلوط سرکار پر الزام لگ رہا ہے کہ وہ امریکی افواج کے دباؤ میں ہے۔ امریکہ میں سیاسی انتظامیہ یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے پاکستان سے ناراض ہے۔ اگرچہ افواج پاکستان کے کماندار واضح طور پر روس کے کردار پر کافی تنقید کر چکے ہیں، مگر امریکہ مطمئن نظر نہیں آتا۔ پھر ملک میں ایک دفعہ پھر دہشت گردی کا سامنا ہے اور ماضی کی طرح جب بھی سابق وزیراعظم نواز شریف کے معاملات خراب ہوتے ہیں تو ملک میں دہشت گردی میں یک دم اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس دہشت گردی پر سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ آصف علی زرداری مخلوط سرکار کے غیرسرکاری راکھیل بھی ہیں۔ انہوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا کر جمہوریت بہترین انتقام ہے کی بات ثابت کر دی ہے۔

‎اس وقت سیاسی اشرافیہ اور قومی میڈیا کا کردار بہت ہی مشکوک سا ہے۔ سیاسی اور آئینی معاملات ملکی عدالتوں کی توجہ کے محتاج ہیں اور پاکستان کا الیکشن کمیشن عام انتخابات کے لئے تیاری کرتا نظر نہیں آتا۔ ان کے پاس انتخابات کے حوالہ سے بہت سارے مقدمے زیرالتوا ہیں۔ پھر الیکشن کمیشن کے سربراہ پر اعتبار نہیں کیا جا رہا۔ اب سابق وزیراعظم کا انکشاف ہے جب الیکشن کمیشن کے سربراہ پر کوئی فیصلہ قابل قبول نہ تھا اس وقت عسکری حلقوں نے ایک اہم حاضر سروس سرکاری افسر کا نام دیا اور بتایا کہ یہ سب کے لئے قابل قبول ہو گا اور موصوف نے اس معاملہ میں سابق وزیراعظم سے اجازت طلب کی اور الیکشن کمیشن پر اپنا راج شروع کیا اور کئی ایسے اقدامات کیے جو اصولی اور قانونی طور پر مناسب نہیں تھے، مگر وہ من مانی کرتے رہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان قابل اعتبار نہ رہا۔

‎اس سیاسی انتشار کے دور میں کپتان عمران خان نے پاکستان کی جنتا کو کافی مصروف رکھا۔ انہوں نے جلوسوں کی بجائے جلسے شروع کیے اور حیران کن بات یہ ہے کہ عوام کی شمولیت بہت ہی حیران کن سی نظر آ رہی ہے۔ عمران خان کے جلسوں میں ہر عمر کے لوگ عمران خان پر اعتبار کرتے نظر آ رہے ہیں اور عمران خان اپنی تقریروں میں مخلوط سرکار کے لوگوں کو زبردست طریقہ سے نشان ستم بناتا ہے اور اس کے الزامات میں صداقت بھی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم صفدر جو مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر بھی ہے وہ جلسوں کی محفل جماتی نظر آ رہی ہیں، مگر ان کے جلسوں میں شادیوں کی طرح پیسوں کو لوٹایا جانا نظر آتا ہے مگر عوام کم اور کرائے کے لوگ زیادہ نظر آتے ہیں جو صرف قیمہ والے نان کے چکر میں تماشائی بنتے ہیں۔

‎کپتان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منصوبہ بندی میں سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کا کردار بہت اہم نظر آتا ہے۔ ان کی منصوبہ بندی میں عسکری حلقوں کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ غیرجانبدار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ان کے اس کردار پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ سابق فوجی حضرات بھی اس صورت حال سے متاثر نظر آ رہے ہیں۔ ان کا رویہ اور قول سوشل میڈیا پر بہت ہی نمایاں نظر آ رہا ہے۔ اس مرحلہ پر فوج کا شعبہ تعلقات عامہ نے کوشش کی کہ سابق فوجی حضرات کو مطمئن کیا جائے اور اس سلسلہ ملک بھر کی اہم فوجی چھاؤنیوں میں جنرل قمرجاوید باجوہ نے خطاب بھی کیا اور اپنی صفائی بھی پیش کی۔ اس سے بھی کوئی اچھا تاثر نظر نہیں آیا اور قمر جاوید باجوہ افواج میں اپنا سابقہ اعتبار دوبارہ پانے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

‎اس مخلوط سرکار کے ایک وزیر ایسے بھی ہیں جو اپنے وزیراعظم سے فاصلہ رکھتے نظر آتے ہیں۔ جب یہ لوگ عمرہ کے لئے سعودی عرب گئے تو ان کا سواگت بھی بہت ہی خشک سا نظر آیا اور مدینہ میں سب لوگ منتشر نظر آئے۔ وزیراعظم شہباز شریف عرف سیٹھ مسجد نبوی ﷺ جاتے وقت عوام کے ہجوم میں خاصے بے توقیر ہوئے۔ لوگوں نے ان پر خاصی نعرہ بازی کی اور ان کے ساتھ مریم اورنگ زیب اور ایک بلوچی مشکوک وزیر کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آیا پھر سعودی سرکار نے چند لوگوں کو پکڑا بھی اور تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ نعرے لگانے والے لوگ تو اپنے ہی آدمی تھے۔ دوسری طرف وزیرخارجہ بلاول زرداری نے اپنی حیثیت علیحدہ رکھی اور کسی بھی جگہ اکٹھے نظر نہیں آئے اور سعودی عرب سے خالی ہاتھ واپس آئے۔ بھکاری وزیراعظم تشنہ لب ہی رہے۔

‎اعلیٰ عسکری حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سابق سرکار کی افواج پاکستان نے بہت ہی مدد کی اور ان کو سعودی عرب اور چین سے جو قرض کی رقم ملی وہ صرف اور صرف قمرجاوید باجوہ کی وجہ سے ملی تھی۔ اس وقت پاکستان شدید مالی اور معاشی بدحالی سے دوچار ہے۔ کپتان عمران خان کی منصوبہ بندی کو نظرانداز کر کے مخلوط سرکار اپنی مشکلات میں اضافہ ہی کیا۔ اب مخلوط سرکار اس کوشش میں ہے کہ فوج ان کی مدد کرے۔ فوج میں بھی لوگ اس سیاسی جنگ سے پریشان ہیں پھر کور کمانڈر پشاور کا غیرملکی دورہ بھی ایک سوال ہے۔ مخلوط سرکار کے اقدامات سے لوگ پریشان ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جو کچھ سری لنکا میں ہوا وہ پاکستان میں ہو سکتا ہے۔ کپتان عمران خان ایک نئے پاکستان کی نوید دے چکا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستان آزاد ہو گا۔

‎اب مخلوط سرکار کے شہباز شریف عسکری حلقوں سے کہہ رہے ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں کے لئے ہماری مدد کریں اور اس حوالہ سے نیشنل سیکورٹی کونسل اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت قمرجاوید باجوہ آئندہ کے انتخابات کے لئے وقت کا تعین کر چکے ہیں اور افغانستان سے معاملات طے ہونے جا رہے ہیں اور جنرل فیض حمید ان سے بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف افغانستان کے تحریک طالبان سے داعش کی جنگ جاری ہے۔ لگتا ہے اب پاکستان کی سیاست میں فوج کا کردار ایک نئے انداز سے ہو گا اور سب کو اپنا کردار بدلنا ہو گا۔ اس میں اعلیٰ عدالتی حلقے اور اعلیٰ نوکر شاہی بھی شامل ہے۔ دیکھے یہ سب کچھ ہونے کے بعد عمران خان کس طرح سے نئے سیاسی نظام میں اپنے کردار کا تعین کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments